2دسمبر 2016کو چیف سیکریٹری بلوچستان کی زیر صدارت محکمہ جات کے سیکریٹریز کی میٹنگ کی خبر اگلے روز شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنی۔خبر یہ تھی کہ صوبے کے مختلف محکموں میں کم از کم 35ہزار آسامیاں خالی ہیں ۔ اور ان آسامیوں پر اگلے چھ ماہ میں اگر تعیناتیاں نہیں ہوپاتی ہیں تو انہیں خود بخود ختم تصور کیاجائے گا۔ یہی وہ خبر تھی جوملازمت کے حصول میں سالوں سے منتظر صوبے کے بے روز گار نوجوانوں پر بر ق بن کر گری ۔ایک ایسا صوبہ کہ جہاں غربت ،بھوک وافلاس، بدحالی نے ہر سمت ڈیرے ڈال رکھی ہو ۔جس صوبے میں لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہوں،جہاں ذرائع معاش ور وزگار کے اسباب بھی نہ ہوں،جہاں صوبے میں تعلیم یافتہ بے روز گارنوجوانوں کی تعدادکافی زیادہ ہو ۔ایسے صوبے میں پینتیس ہزار ملازمتوں کی آسامیاں خالی ہونے کی خبربڑی دیر بعد میڈیا کی زینت بنے اورقبل ازیں ارباب اختیار لا تعلق، بے خبرہو ں توایسے اختیار داروں کے رویے پرصرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔بیورو کریسی کی جانب سے صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ یہ رویہ کوئی المیہ نہیں بلکہ یہاں کی محرومیوں کے شکار عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ اس لاپرواہی ، اپنے عہد و منصب سے بے اعتنائی برتنے والی بیورو کریسی کا محاسبہ ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرے گا کون؟یہ بات کس کے علم میں نہیں ہے کہ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے ۔جہاں نئی نسل پیدائشی غریب ہوتا ہے ۔ وہ غریب پیدا ہو کر غربت ہی میں زندگی کا سفر تمام کرلیتے ہیں ۔صوبے میں غربت بد حالی اور فاقہ کشی کے باوجودیہاں کے نوجوان اپنی ساری جمع پونجی صرف کرکے تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تعلیم حاصل کرکے جو ڈگریاں انہوں نے حاصل کی ہوئی ہیں وہ ڈگریاں انہیں کام دینے والی نہیں اور نہ ہی انہیں روز گار کی امید لگائے رکھنی چاہئے اور نہ ہی انہیں روز گار کا موقع ملنے والا ہے۔یہی وہ محرومیاں ہیں جو صوبے میں برسوں و دہائیوں سے جاری وساری ہیں ۔ بلوچستان میں بے روز گار نوجوانوں کی ایک لاتعداد فہرست ہے ۔جن کی عمر بالائی حد کو پہنچ چکی ہے یا پہنچ رہی ہے۔صوبے میں ناخواندگی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ جب تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیکر روز گار کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں تو نئی نسل اور دوسرے خاندان کے افراد یہ بات بڑے غور سے محسوس کرتے ہیں کہ جب ہمارے صوبے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے روز گار میسر نہیں ہے تو ہم کیونکر پڑھیں یا اپنے بچوں کو پڑھائیں ۔ یہی وہ نقص ہے کہ جس کی وجہ سے ایک بڑی نسل تعلیم سے بے زاری محسوس کررہی ہے ۔ اور صوبہ مزید تعلیمی نا خواندگی کا شکار ہورہاہے ۔ماضی کی حکومتوں کو تو قصہ پارینہ سمجھیں۔2013کے بعدموجودہ حکومت کو قائم ہوئے ساڑھے تین سال مکمل ہوچکے ہیں ۔اس دور حکومت میں بلوچستا ن کے بے روز گار نوجوانوں پر نہ دست شفقت رکھا گیا اور نہ ہی انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کئے گئے ۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کی زیر صدارت اجلاس میں سیکریٹریز نے اس بات کا انکشاف کیا کہ صوبے کے محکموں میں خالی آسامیاں 35ہزار ہیں اور چیف سیکریٹری نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان آسامیوں پر بھرتی نہیں ہوئی تو چھ ماہ کے اندر اندریہ آسامیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی ۔ یہی وہ المیہ ہے جو کہ ہمارے بے روز گار نوجوان نسل کے لئے ستم بنا ہوا ہے ۔صوبے کے ان بے روزگار نوجوانوں کے کنبے اور ان کے مستقبل کی فکر کسی کو بھی نہیں ہے ۔سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بیوروکریسی چیف سیکریٹری سے لیکر تمام محکموں کے سیکریٹریز تک کویہ خیال اس سے قبل کیوں نہیں آیا ۔کیا اس وقت بے روز گاری ختم ہوگئی تھی ۔کیا بے روز گار نوجوانوں نے ملازمت حاصل کرنے کی صدا ختم کردی تھی ، کیا صوبے میں خوشحالی اور نعمتوں کی فراوانی تھی ، کیا اس سے قبل یہاں شہد و دود ھ کی نہریں بہہ رہی تھیں کہ چیف سیکریٹری اور اس کے ماتحت منتظمین صوبے کے تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوانوں کے اس غم سے بے غم ہوگئے تھے ۔ صوبے میں تو بدستور غربت ، بے روز گاری اور بھوک ا فلاس کادور دورہ تھا جیسا آج ہے ۔پھر کیونکر یہ بیورو کریسی پُر آسائش زندگی سے باہر نہیں آئی اورخواب غفلت میں رہی ، آخر وہ کونسی بات تھی کہ ارباب اختیارصوبے کے بے روزگار نوجوانوں کی پریشانی اور ان کے مستقبل سے بے فکر رہے۔ آج بھی صوبے میں کسی بھی بے روز گار تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ملاقات ہوتی ہے یا صوبے کے کسی بھی حصے سے مجھے بطور ایک جرنلسٹ کے فون آتا ہے تو ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کسی اخبار میں خالی آسامیاں مشتہر ہو ں تو ضرور اطلاع دینا ۔اور ایسے بے روز گار نوجوان ہزاروں کی تعداد میں ہیں کہ جن کی عمریں بالائی حد کو پہنچ چکی ہیں۔ اور وہ ملازمتوں کے حصول سے محروم ہیں ۔آخر صوبے کے چیف سیکریٹری کو ہمارے بے روز گار نوجوانوں پر کیوں رحم آئے جب ہمارے منتخب نمائندگان کو اپنے بے رو ز گار نوجوانوں کی بے روزگاری کی فکر لاحق نہیں ۔اس سے قبل ملنے والی معلومات کے مطابق ایسے بہت سارے محکمے ہیں کہ جنہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں خالی آسامیوں کی فہرستیں اضلاع سے سمیٹ کر صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے اپنے بالائی آفیسران کو بھیج دیئے تھے۔ اور یہ سب خالی آسامیوں کی تعدادمبینہ طور پر چیف سیکریٹری بلوچستان کے سامنے پیش بھی کئے گئے ۔وہ آسامیاں نہ مشتہر ہوئیں اور نہ ہی ان پر بے روزگار نوجوانوں کو بھر تی کرنے کی گئیں۔ اس طرح بے روز گار نوجوان ہمیشہ کی طرح موجودہ دورمیں بھی پسِ منظر میں رہے ۔صوبے کے عوام کو شکایت ہے کہ بلوچستان میں بیورو کریسی اپنے آپ کو عوام کا خادم اور ملازم نہیں سمجھتی ہے بلکہ وہ شاہانہ اور متکبرانہ مزاج لئے سب سے زیادہ عوام کا استحصال کررہی ہے ۔ اور یہ استحصال آج سے نہیں بلکہ دھائیوں سے جاری ہے ۔لگثرری گاڑیوں ،لشکر نماء پروٹوکول اور عالیشان بنگلوں کے رہائش پذیر بیورو کریسی کو صوبے کے اس غریب بے روز گار نوجوانوں کی غربت فاقہ کشی سے کیا سروکار کہ جن کی اپنی زندگی پُرآسائش ماحول میں گزررہی ہے۔اس بیورو کریسی کو صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کی کیا فکر لاحق ہوگی کہ جن کا محاسبہ کرنے والا کوئی بھی نہ ہو۔بلوچستان کے کوٹے کی کئی ہزار خالی آسامیاں و فاق میں برسوں سے خالی ہیں ۔ وفاق میں خالی پوسٹوں پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے مبینہ طور پر بھرتیاں ہوتیں رہی ہیں ۔اس کی صدا وقتاً فوقتاً صوبے کی سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے اٹھاتے رہے ہیں لیکن اس کا نہ نوٹس لیاگیا اور نہ ہی ان خالی آسامیوں پر بھرتیوں کا آغاز ہوا۔ جو خالی آسامیاں اپنے ہی صوبے میں موجود ہیں وہ بھی یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو نصیب نہیں ہوپارہی ہیں ۔ بلوچستان میں نوجوانوں کو روزگار کے ذرائع دستیاب نہیں کہ وہ سرکاری ملازمت سے بے فکر ہو کر اپنے لئے آمدن کے دیگر ذرئع تلا ش کریں ۔ صوبے میں کوئی صنعتی زون نہیں ہے ۔ کراچی سے منسلک لسبیلہ کے شہر حب میں چند ایک صنعتی یونٹس قائم توضرور ہیں تاہم ان سے بھی کراچی یا ملک کے دیگر حصوں کے افراد مستفید ہورہے ہیں ۔ بلوچستان کے بے روزگار نوجوان حب کے صنعتی یونٹس میں بھی ملازمت حاصل کرنے سے محروم ہیں۔حب کے ان صنعتوں میں بلوچستان کے نوجوانوں میں سے چند ایک کو ڈیلی ویجزکی بنیاد پر بطور لیبر اگرکام مل بھی جائے تو یہ غنیمت تصور کیا جاتاہے ۔ صوبے میں روز گار کے مواقع میسر نہیں ہیں ۔ بے روز گار نوجوان ڈگریاں حاصل کرکے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ایسے میں اگر ہمارے نوجوانوں پر سرکاری محکموں میں خالی آسامیوں پر بھی ملازمت کے دروازے بند ہوں تو وہ کیا کریں ۔؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ حل طلب رہاہے ۔3دسمبرکے اخبارات میں چھپنے والا چیف سیکریٹری کی زیر صدارت اجلاس کااحوال بھی شاید صرف خبر ہی کی حد تک رہیگا۔ماضی کے مشاہدات اور روایا ت کو دیکھتے ہوئے بے روزگار نوجوان اس وقت بھی زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں ۔ بے روزگار نوجوانوں کا یہی خیال ہے کہ بیورو کریسی کی عدم دلچسپی اس بار بھی حاوی رہیگی ۔یہ چھ ماہ کا عرصہ بھی گزر جائیگا اور بے روز گار نوجوان ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہیں گے اور انہیں ملازمتوں کے حصول میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق موجودہ چیف سیکریٹری بلوچستان کے دور میں صوبے کے بے روز گار نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا تناسب انتہائی کم رہا۔ اس حوالے سے نہ صرف بے روز گار نوجوان بلکہ صوبے کی سیاسی جماعتیں اور منتخب عوامی نمائندے بھی شکوہ اور شکایتیں کرتی رہیں۔ بتایاجارہاہے کہ موجودہ چیف سیکریٹری بلوچستان کی مدت ملازمت میں شاید چند ہی ماہ رہ گئے ہوں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف سیکریٹری بلوچستان اگلے چند ماہ کے دوران انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے ان 35ہزارملازمتوں پر بھرتیوں کے عمل کو مکمل کرکے صوبے کے بے روز گار نوجوانوں کے توقعات کو پورا کرنے کی صورت میں ایک تاریخ رقم کرکے رخصت ہوتے ہیں یا شکوہ اور شکایتوں کے ازالے کی بجائے انہیں ادھورا چھوڑ کر رخصت ہوتے ہیں ۔ اس کا جواب آنے والے چند ہفتوں میں مل جائیگا ۔دوسری جانب داد رسی اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہمی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی ایک تاریخ رہی ہے ۔صوبے میں سب سے زیادہ بے روز گار نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کو یاد رکھا جاتاہے ۔صوبے کی اعلیٰ وزارت پر فائز ہونے سے قبل نواب ثناء اللہ خان زہری بلاتفریق بے روز گار نوجوانوں کو ہزاروں کی تعداد میں روزگار فراہم کرچکے ہیں ۔ آج جب وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں تو ماضی کی طرح صوبے کے بے روز گار نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ان سے یہی امید لگائی رکھی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اپنے دورِ وزارت اعلیٰ میں صوبے میں بے روز گاری کے شرح میں واضح کمی کرکے ماضی کی روایت کو برقرار رکھیں گے اور بے روزگار نوجواوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے میں کامیاب ہونگے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری بے روز گار نوجوانوں کی توقعات پر کس حد تک پورا اتر کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائیگا۔تاہم یہ ارباب اختیار کے لئے کسی بھی امتحان سے کم نہیں ہے…… کہ ایک طرف غریب صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کا انتظارہے……دوسری جانب35ہزار ملازمتیں ہیں….. وقت بھی کم ہے …..اور اہم فیصلے واقدامات کرنے ہیں …….اب دیکھنا یہ ہے کہ اس امتحان میں ارباب اختیارکس حد تک کامیاب ہوپاتاہے۔ اور بے روزگار نوجوانوں کی لاٹری نکل آتی ہے…… یا غربت اور بدحالی و بے روزگاری کے منڈلاتے بادل بدستور جاری رہتے ہیں……. اس کا فیصلہ اگلے آنے والے چھ ماہ میں ہونے کو ہے……!