پاکستان کی سیاست میں کب کیا ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ جہاں سیاسی ادارے کمزور اور سیاسی قوتیں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے عسکری قیادت کے تابع نظر آتی ہوں تو وہاں سیاسی و جمہوری اداروں کا کمزور پڑجانا ایک فطری عمل ہے جس کے نتیجے میں جمہوریت اور جمہوری عمل کے حوالے سے کافی سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام نہیں رہا اور یہاں کی جمہوریت بھی بس ووٹ دینے اور ووٹ لینے کے عمل تک ہی محدود رہی جس کے نتیجے میں یہاں نہ صرف جمہوریت گھٹنوں کے بل چلتی رہی بلکہ جمہوری ادارے بھی نہ پنپ سکے جس کے تناظر میں جمہوری رویے بھی کمزور دکھائی دئیے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔
جنرل ایوب ، جنرل یحٰیی ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف یہ وہ عسکری قیادت تھی کہ جو سالوں سال براہ راست اس ملک کے سیاسی عمل میں اپناکردار ادا کرتی رہی ، اور سول مارشل لاء کی ایک نئی اصطلاح کے ساتھ سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے والے ان جنرلوں نے اس ملک کی سیاست میں سیاسی رہنماؤں اور سیاسی پارٹیوں کے کردار کو مائنس کرتے ہوئے نہ صرف جمہوری روایات کو پامال کیا بلکہ جمہوری رویوں کو بھی پاؤں تلے روندھ ڈلا جس کے نتیجے میں آج تک اس ملک میں نہ تو سیاسی کلچر پروان چڑھ سکا اور نہ
جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کیا جاسکا ۔
تاریخ کے اس سیاسی عمل کے تناظر میں اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو آج بھی اس ملک کی سیاست میں عسکری قیادت کی دھاک بیٹھی ہوئی نظر آتی ہے جس کی واضح مثال ہمیں گزشتہ دنوں جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو تبصرے اور تجزیے سننے اور پڑھنے کو ملے اس کے تناظر میں سیاسی قیادت کے سربراہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کاسیاسی کردار بہت زیادہ تنزلی کی طرف گامزن ہوتا ہوا دکھائی دیا جب کہ اس کے برعکس جنرل راحیل شریف پورے سیاسی پس منظر پر چھائے ہوئے نظر آئے ۔ کوئی بھی پاکستانی دانشور، تجزیہ کار اور اینکر پرسن ایسا نظر نہیںآیا کہ جو جنرل راحیل شریف کو ایک مسیحا کے طور پر پیش نہ کررہا ہو اور ان کو اس ملک کے کروڑوں عوام کا نجات دہندہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کررہا ہو ۔
انتہا تو اس وقت ہوگئی جب صدر پاکستان ممنون حسین جنرل راحیل سے سے ملاقات کے دوران یہ استدعا اور درخواست کرتے ہوئے نظر آئے کہ جناب آپ ہمیں یہ اعتماد دلائیں کہ آپ کے جانے کے بعد کراچی میںآپریشن کا عمل نہیں رکے گا بلکہ جاری رہے گا ۔ صدر صاحب کی اس درخواست سے دو باتیں واضح ہوگئیں ایک یہ کہ کراچی میں امن کی بحالی میں نواز شریف حکومت کا کوئی کردار نہیں ،بلکہ یہ سارا عمل فوج کا شروع کیا ہوا ہے اور اس کا کریڈٹ بھی اسی کو ملناچاہیئے اور دوسری بات یہ کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جنرلوں کے سامنے منتخب وزیر اعظم اور صدور کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اس سے بڑھ کر عجیب اور حیران کن بات یہ رہی کہ صدرِ موصوف گزارش بھی کس سے کررہے تھے اس شخص سے کہ جو اپنے عہدے کی معیاد پورا کرکے جانے والے تھے ،اصولی طور پر تو اس طرح کی گزارشات و درخواستیں آنے والوں سے کی جاتی ہیں نہ کہ جانے والوں سے ، صدر صاحب کی اس گزاراش کے تناظر میں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ جنرل راحیل شریف اس ملک کے سیاسی و انتظامی معاملات میں مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں اپنا عملی کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
بحر حال یہی پاکستان کی سیاست ہے کہ جس کے تاریخی رنگ و دروشم ہمیں کم و بیش اسی طرح ہی نظر آتے ہیں کہ جہاں سیاسی قیادت ہمیشہ عسکری قیادت کے رحم و کرم پر رہی ہے ، ملک کے پہلے وزیر اعظم کو کھلے عام راولپنڈی کے لیاقت پارک میں گولی کا نشانہ بنا کر قتل کردینا ، ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ایک آمر کی حکومت میں تختہ دار پر چڑھادینا ۔ ملک کے منتخب وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور محترم نواز شریف کو دو مرتبہ حکومتوں سے بے دخل کرنا اور پھر جمہوریت کی علمبردار محترمہ بینظیر بھٹو کو لیاقت علی خان کی طرح لیاقت پارک میں گولی سے بھون دینا یہ ایسے دلخراش واقعات ہیں کہ جو اس ملک کے سیاسی پس منظر پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے ہیں اور جن کا تذکرہ سیاسی محفلوں میں آج بھی کیا جاتا ہے۔
اگرآج کے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی سیاسی و اقتصادی حالات کے پس منظر میں پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج پاکستان ایک مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے، اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار نے امریکہ کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ذرریعے پاکستان کو ایک جنگی صورتحال سے دوچار کرے اور پھر ٹرمپ کا امریکی صدر کی حیثیت سے سامنے آنا پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنے گا ۔دوسری طرف پاکستان میں سیاسی انتشار ، پی ٹی آئی کی طرف سے وزیر اعظم اور موجودہ حکومت کے خلاف پانامہ پیپرز کے تناطر میں نہ رکنے والااحتجاج اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوکے چار نکاتی مطالبات پورے نہ ہونے پر 27دسمبر کے بعد احتجاج کی دھمکی موجودہ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ کہ جنرل باجوہ موجودہ حکومت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کردار ادا کریں گے اور موجود سیاسی افرا تفری کے غیر یقینی ماحول میں وہ اپنے پیشرو کی طرح کیا کردار ادا کریں گے اورسی پیک پروجیکٹ کے تنا ظر میں امریکہ کی لگائی آگ کہاں جا کر بجھتی ہے۔۔۔۔!
zk.visionary@hotmail.com