|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2016

گزشتہ روز پشتونخوا میپ کی جانب سے خان شہید خان عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کی مناسبت سے پشین میں جلسہ منعقد کیا گیاجس سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے سربراہ نے اپنے تقریر کا زیادہ تر حصہ بجائے اصل غاصب استعمار کی مظلوم و محکوم اور زخم خوردہ بلوچ قوم اور بلوچ جغرافیے کی تقسیم کی جانب کراتے ہوئے مذہبی پشتون رہنماء مولانا فضل الرحمان سے حمایت کا عندیہ دیتے ہوئے شر کاء کو خوب ورغلا کر گرمانے کی کوشش کی۔ پشتون و بلوچ اقوام کی ایک بد قسمتی یہ رہی ہے کہ اصل مسئلہ،زمینی حقائق اور سیاسی شعبدہ بازی میں موجود کسی مذموم مقاصد کو سمجھے بغیر ورغلاہٹ پر عمل پیرا ہو کر بے وجہ تفاوت اور عداوت کی سبب بنتی ہے.پھر ورغلاہٹ میں آکر نفاق میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ پڑ تے ہیں.جب تک کہ اصل حقائق سامنے آجائیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے.پھر پچھتاوا اور ندامت کے سوا ان کے پا س کچھ نہیں رہ پاتا. درحقیقت بلوچ قوم نے ہرگز برادر پشتون قوم کی بطور وفاقی اکائی کے مخالفت نہیں کی نہ ہی اس پر بلوچوں کو اعتراض ہے.بلوچ قوم کی بھی یہی خواہش ہے کہ چند اضلاع کو عموماً اکثریتی بلوچ اضلاع پر فوقیت دینے کے باوجود کچھ پشتون متعصب وتنگ نظر نمائندے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلیئے جنوبی پشتونخواہ کے خود ساختہ نعرے پر بضد ہیں.اوروہ بلوچوں پر عرصوں سے جاری مظالم کوخاطر میں لائے بغیر،ان پر ہونے والے جبروتشدد کے روک تھام کیلئیے کردار ادا کرکے ان کی اس مشکل گھڑی میں ساتھ دئیے بغیر نفاق کو ہوا دیکر بلوچ و پشتون کی صدیوں پر محیط تاریخی باہمی رشتے کے خاتمہ پر سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں.اور خاص طور پر اگر مظلوم ظالم کی ظلم کے خلاف متحد ہو نے کی بجائے مظلوم،مظلوم کی قومی بقاء کو سیاسی نعرہ بنائے تو بجائے یہ کہ وہ مظلوم کے تمام انتظامی عہدوں پر فائز ہواس سے بہتریہی ہوگاکہ انکااپنا الگ وفاقی اکائی ہو. مگر حیرت تو اس بات پرہوتی ہے کہ بلوچ قوم نے ہمیشہ ایک تاریخی قوم کی حیثیت سے تمام برادر اقوام پشتون ،ہزارہ،سندھی،سرائیکی،پنجابی،ازبک، تاجک اورنوراستانی خاص طور پر تمام ہمسایہ اقوام کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرتے ہوئے انہیں وہ عزت اور مقام دیاجو انکی تاریخ وثقافت متقاضی ہیں.اسی طرح جب 1980کی دہائی میں برادر پشتون قوم پر ایک مشکل گھڑی آئی اور انکے آبائی وطن افغانستان ہر طرف سے جنگ وجدل اور آگ کی شعلوں کی لپیٹ میں آئی تو بلوچوں نے ایک ہمدرد و رفیق ہمسایہ ہونے کے ناطے پہل کر دل کھول کر انکی ہر طرح سے کی مدد کرتے ہوئے افغان وطن سے آئے ہوئے بے یار ومدگا مہمان افغان مہاجرین کے لیے نہ صرف اپنے گھر کے دروازے کھولے بلکہ اپنی دل کے دروازے کھول کر خود بچوں سمیت بھوکے سوئے اور اپنے مہمانوں کو پیٹ بھر کر کھلایااور انہیں اپنے گھروں میں پناہ دے کر خوب مہمان نوازی نبا کر عزت افزائی کی. خاص طور پر پشتونخوا میپ کے سربراہ کو مفکر قوم جناب سردار عطاء اللہ خان مینگل نے پونم کا سربراہ بنا کر خطے میں تمام مظلوم اقوام کی بنیادی و قومی جدو جہد کی ذمہ داری سونپ کر خطے کا سربراہ مقرر کیا۔اگر خدا نخواستہ بلوچوں میں برادر پشتونوں کیخلاف نفاق ہوتی تو بلوچ ایک پشتون کو اپنالیڈر کیسے بناتے ؟بلکہ اس کی جگہ کسی اوربلوچ کو لیڈر بنا لیتے.مگر افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ یہی پشتون نمائندہ جو بلوچستان میں برابری کی بات کرتے ہیں.انہیں غیرجانبدارانہ طور پر سوچنا ہوگاکہ بلوچوں نے تو اسے کب کی برابری دیدی مگر وہ تو برابر ی کے قابل ہی نہ رہا کہ اس نے تو پو نم کے بنیادی و قومی جدوجہد کو فرامو ش کر کے اپنی ذات سے آگے نکل نہ سکا.لیکن بلوچوں نے آج تک یہ وجہ بھی نہیں پوچھی کہ اس نے پونم کو کیوں فراموش کیا؟تاہم اس کے باوجود پشتونخواہ میپ نے عموماً اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے بلوچوں کے خلاف زہر اگل کر اپنے خود ساختہ نعرہ بولان سے چترال تک پشتونوں کے لیے ایک علیحدہ صوبہ کا مذموم عزائم یعنی اقتدار کے حصول کا نظریہ ضرورت کے تحت وقتاًفوقتاً اعادہ کرتے ہوئے اس سے خاطر خواہ عوامی ہمدردی حاصل کرتے رہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ان کے پاس کوئی اور منظم و موئثر پروگرام بھی نہیں جو پشتونوں کو پشتونخواہ میپ کی پلیٹ فارم پر متحد کر ے کیونکہ پشتون بیلٹ میں پشتونخوا میپ سے زیادہ منظم قوم پرست جماعت اے این پی موجود ہے.اور مذہبی رجحانات بھی نسبتاً زیادہ ہیں.پھر گزشتہ کئی عرصوں سے وہاں مذہبی جماعتوں کی حکمرانی بھی رہی ہے.وہ ترقیاتی کاموں وعوامی فلاح و بہبود میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہیں تو غالباً پشتونخوا میپ کے لیے ان سے مدمقابل ہونے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہی وہ اقتدار تک پہنچ سکتی ہے. اگرچہ پشتونخوا میپ کے موجودہ دور اقتدار کا سرسری جائزہ لیاجائے تو گورنر شپ،وزارت،اور دیگر اعلیٰ انتظامی عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود عام پشتونوں کی معیار زندگی بہتر نہیں ہوئی اورنہ ہی عام پشتونوں کو بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوئے ہیں جبکہ ایک مخصوص طبقہ عہدے،ملازمت، اور وزارت،مفادات و مراعات سے مستفید ہورہاہے .خاص طور پر میپ کے سربراہ کے خاندان، رشتہ دار،عزیزو اقارب پر عہدے و ملازمتیں اور ٹھیکے تقسیم ہورہے ہیں.تاہم قوم پرستی کے نام پر ایک ہی خاندان کی جائیدادیں اور بینک بیلنس بڑ ھ رہا ہے خصوصاً ڈیورنڈ لائن ٹھیکے سے بھی وہ ہی مستفید ہورہے ہیں. مزید برآں،اس وقت عام پشتون پشتونخوامیپ سے بری طرح مایوس ہے کیونکہ وہ ان کی امنگوں کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے پشتونوں میں مذہبی و جماعتی بنیادوں پر نچلی سطح پر تفریق کرکے انہیں ترقیاتی عمل سے دور رکھا جارہاہے تو لوگ حقیقی پشتون نمائندہ جماعت اے این پی اور مذہبی جماعتوں کی طرف متوجہ ہورہے ہیں.اس لیے اب جبکہ میپ قیادت یہ سوچ رہی ہے کہ کس طرح اپنے ووٹرز کو قائل کرکے پارٹی سے منسلک کرے اور کس طر ح لسانی تفریق کے نام پر عام پشتون کا توجہ حاصل کرے؟یقینی طور پر انہیں ورغلا کر خود کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے بولان سے چترال تک نیا صوبہ پشتونستان کا قیام ایک مہلک ہتھیار کے طور پر کام کر یگا جوپشتونخواہ میپ کے ڈوبتی کشتی کو تنکے کا سہارا دے کر آنے والے الیکشن میں کامیابی دلاسکتی ہے لیکن اگر دوسری جانب برادر بلوچ و پشتون اقوام کے صدیوں پر محیط تاریخی رشتے کا سرسری جائزہ لیاجائے.تو پشتون رہنماء احمد شاہ ابدالی اور بلوچ رہنماء خان میر نوری نصیر خان کا دوستانہ تعلق،باہمی روادری،سخاوت،مہر و محبت خاص طور پر افغان وطن اور بلوچستان کے باہمی امور،یکساں ترقی و خوشحالی میں دلچسپی اور اغیار سے مشترکہ طور پر نمٹنے و مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے عظیم تعلق کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا.اس کے علاوہ بلوچوں کا افغان وطن کے لیے قربانیاں بھی کسی سے ڈکھی چھپی نہیں.ہلمند کے پہاڑوں میں مستحکم و ترقی یافتہ اور خوشحال افغانستان کے لیے غلام حیدر بلوچ کی شہادت و نمروز کے پہاڑوں میں عبدالستار گورگیج و انجئیر نظرجان بلوچ کی جام شہادت کو بھی کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا.اب جبکہ اگر کوئی حصول اقتدار اور ذاتی و گروئی مفادات کے لیئے بلوچ و پشتون اقوام کے تاریخی دوستانہ اور برادرانہ تعلق و رشتے کو پاؤں تلے روند کر سیاست کی نظر کرکے اسے سیڑھی کے طور پر استعمال کرکے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو بلوچ اور پشتون اقوام کو اس کے سیاسی شوشہ و مذموم عزائم کو سمجھنا ہوگا.اور ایسے عناصر کی( چائے وہ پشتون ہو یا بلوچ )وقتی نعروں،نفرت،عداوت اور تنگ نظری بالخصوص برادر اقوام کو آپس میں تقسیم پر مبنی سلوگنز کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے.نہ ایسے سیاسی شعبدہ بازی پر توجہ دینا چاہیئے.جو باہمی طور پر بردار اقوام کی تاریخی رشتے میں خلل کا موجب بنتی ہو۔تاہم برادر بلوچ وپشتون اقوام سے گزارش ہے کہ نفرت و عداوت اور لسانی تنگ نظری سے اگر کسی کے ڈوبتی کشتی کو تنکے کاسہارا مل سکتا ہے تو وہ اپنی کو شش ضرور جاری رکھے لیکن مجموعی طور پر دونوں اقوام احمد شاہ ابدالی اور خان میر نوری نصیر خان کے نقش قدم پر چل کر باہمی رواداری، صبر وتحمل،مہر ومحبت، سخاوت وبرداشت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور خلوص کے ساتھ اپنے باہمی دوستانہ تعلق و تاریخی رشتے کو اتحاد و یکجہتی کے ذریعے قائم و دوئم رکھے تاکہ دونوں اقوام یکساں ترقی و خوشحالی کے راہ پر گامزن ہوں.