سبی: اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین و جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ممالک دنیا کے بحرو بر اور فضاء کے مالک بنے بیٹھے ہیں،موجودہ جاری جنگ کا تعلق مذہب اور معیشت سے نہیں بلکہ دو طاقتوں کے درمیان ہے،پاکستان کو مستقبل قریب میں پانچ حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھ رہا ہوں،مذاہب ہمیشہ مظلوم رہے ہیں لیکن اس کا استعمال کرنے والے استعماری قوتیں ہیں موجودہ پاکستان جناح کا نہیں بلکہ جنرل یحیےٰ کا بچا ہوا پاکستان ہے،متحدہ ہندوستان میں پاکستان اورمشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام جغرافیائی حیثیت سے نہیں بلکہ سیکورٹی زون بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا،سی پیک سیاسی شعبدہ ہے جس سے حکمران عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں،سی پیک میں بلوچستان کو لنک روڈ مل جائیں غنیمت سمجھیں گے،مردم شماری آئین تقاضہ ہے جسے پورا کرنا لازمی ہے،جمعیت عہدوں اور مفادات کو ثانوی حیثیت دیتی ہے پارلیمانی سیاست کے ذریعے اسلامی نظام لانے کے لیے کوشاں ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علماء اسلام سبی کے رہنمائپروفیسر حافظ عبدالحئی کھوسہ کی جانب سے دیئے گئے عصرانے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں کیااس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء و سینیٹر مولانا مفتی عبدالستار،مولانا نظام الدین کھوسہ،حافط محمد یعقوب،محمد جمیل کھوسہ،مولان تاج محمد سومرو،مولانا محمد نعیم،مولوی ریاض الدین کھوسہ،حافظ عبدالقیوم کھوسہ،جمعیت علماء اسلام سبی کے امیر مولان عطااللہ بنگلزئی،مولوی محمد ہاشم کھوسہ و دیگر موجود تھے انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ممالک امریکہ،روس،برطانیہ،فرانس اور چین دنیا کے بحر و بر اور فضاء کے مالک بنے بیٹھے ہیں جو جنرل اسمبلی کے فیصلوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دنیا پر اپنے فیصلے مسلط کررہے ہیں مسلح جنگ کسی بھی قوم یا پھر مذاہب کے حق میں نہیں ہے بلکہ موجودہ جنگ کا تعلق نہ ہی مذہب سے اور نہ ہی معیشت سے ہے بلکہ یہ جنگ دو قوتوں کے درمیان لڑی جارہی ہے جو کمزور اسلامی ممالک کو کچلتے جارہے ہیں جس کا خمیازہ مسلم ریاستیں بھگت رہی ہیں انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں دنیا گلوبل ولیج بن کررہ گئی ہے جس کے تناظر میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم تباہی کے راستے پر گامزن ہیں دنیا میں لڑی جانے والی جنگیں امن کی خاطر نہیں بلکہ ذاتی مفادت کی خاطر لڑی گئیں لیکن موجودہ صدی کی جنگ دنیا کے نقشے میں تبدیلی لانے کے لیے لری جارہی ہے جسے مشرق اور مغرب کے درمیان جنگ قرار دیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ امریکہ سپر پاور ہونے کے نشے میں دھت ہوکراسلامی ریاستو ن کو غیر مستحکم بنانے کی سازش کررہا ہے جو دنیا میں اپنا سکہ چلانا چاہتا ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ پاکستان جناح کا نہیں بلکہ جنرل یحیےٰ کا بچاہوا پاکستان ہے جو1947کا نہیں بلکہ 1971کا پاکستان ہے اور متحدہ ہندوستان کو دقومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم کرکے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو مذہب کے نام پر دنیا کے نقشے میں نمودار کیا گیا تھا لیکن اسرائیل اور پاکستان کا قیام جغرافیائی حیثیت سے نہیں بلکہ سیکورٹی زون قائم کرنے کے لیے عمل میں لائے گئے تھے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں مجھے پاکستان پانچ حصوں میں تقسیم ہوتے دکھائی دئے رہا ہے جس میں سندھ و پنجاب قومی وطنی کی بنیاد،پشتونستان اور بلوچستان نسلی بنیاد جبکہ کراچی فکری و قومیت کی بنیاد پر الگ ریاست بنے گا جس میں عسکری و سیاسی قوت سمیت اسٹیبلشمنٹ الگ الگ کردار ادا کرئے گی،سی پیک کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک حکمرانوں کی جانب سے ایک سیاسی شعبدہ ہے جس کے ذریعے حکمران سیاسی دوکان چمکارہے ہیں سی پیک میں مغربی روٹ کا ذکر تک موجود نہیں ہے اگر بلوچستان کو سی پیک کے حوالے سے لنک روڈ مل جائے یہ ہم یہ بھی غنیمت سمجھیں گے انہوں نے کہا کہ مردم شماری آئینی تقاجہ ہے جسے پورا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی مخالفت ان کی ذاتی رائے ہو گی لیکن افغان مہاجرین کا معاملہ ہمارا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے جس سے نمٹنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان نے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں پرائمری سے میٹرک تک قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اگر وزارت تعلیم اور سوبے دلچسپی لی تو عمل درآمد ممکن بن سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علماء اسلام پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے جبکہ عہدوں اور مفادت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے ثانوی حیچیت قرار دیتی ہے انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست کے ذریے اسمبلیوں میں جاکر اسلام کی پرچار اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں ایک سوال کے جواب میں انہون نے کہا کہ جمعیت نظریاتی کے اکابرین نے جمعیت علماء اسلام میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا جو اس وقت بھی ہمارئے ساتھ ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ جلد ہی جمعیت نظریاتی کے ڈھانچے کو ختم کرکے باضابطہ طور پر جمعیت کا حصہ بنیں گے ۔