ماضی میں صوبے سے سرز دہونیوالی زیادتیوں کا ازالہ کرینگے، یہ وہ اعلانات اور دعوے ہیں جو اقتدار نشین پسماندگی کی تصویر بننے اہل بلوچستان سے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد کرتے ہیں، مگر ہوتا کچھ بھی نہیں، اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کی حوس انہیں وہ سب کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، جو ان کے پیش روح کر گزرے ہوں، بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے پسماندہ رکھنا شاید ان کی مجبوری ہے، یہ صوبہ قدرتی وسائل کے اعتبار سے خطے کا سب سے امیرترین علاقہ ہے مگر یہاں کے وسائل کو ایندھن بنا کر بڑے بھائی کو تحفے میں دیا گیا ہے، چاہے وہ حالیہ سی پیک منصوبہ ہو جس سے خطے کی ترقی اور ملک کیلئے گیم چینجر کہاں جارہا ہے، یا اس سے قبل ڈیرہ بگٹی کے تیل اور گیس کے ذخائر ہوں یا پھر سیندک اور ریکوڈک منصوبے یہاں کے مفلوک الحال عوام کی داد رسی تو نہ کر سکیں ، البتہ بڑے بھائی کی معیشت میں اضافہ اورخوشحالی میں کار آمد ثابت ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رئیں گے بیش بہا خائر کے مالک خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور لوگ بنیادی سہولیات سے محروم عوام آج بھی اپنا علاج کرانے سے عاری ہیں ، چاہے وہ کینسر کے مرض سے لڑتا ریحان رند ہوجو موت سے لڑتا اور زندگی کی امید لیے ملک کے سب سے بڑے ہسپتال میں بالا آخر موت کے آغوش میں چلاگیا، اور میت کو لانے کیلئے لواحقین شہنشانہ ہسپتال کے فیس بھرنے کیلئے کسی انسانی مسیحا کے منتظر تھے ، جو ریحان کی زندگی تو نہ بچا سکا، البتہ اس کی میت کو ہسپتال کے سرد خانے میں مقید ہونے سے بچا سکتا یا خضدار کے پرائمری کا طالب علم ہو یا گردوں کے عارضہ میں مبتلا قلات کی بیٹی سینکڑوں طلباء کا مستقبل سنوارنے والا سکول ٹیچر یہ سب وہ لوگ ہیں جو کینسر جیسے موذی امراض سے لڑتے ہوئے یا پھر لڑ رہے ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ قدرت کے بیش بہا وسائل سے مالا مال صوبے کے مفلوک الحال عوام ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو بھی پورا نہیں کرسکتے تو لاکھوں روپے علاج کیلئے انہیں کون دے گا نہ جانے کتنے بلوچستان کے فرزند اور بیٹیاں عمررسیدہ افراد ایڑیاں رگڑ رگڑ کر سرکاری ہسپتالوں کے بستر پر یا اپنے کچے کمرے میں اس دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں، باربار اپیلوں کے باوجود اس بے حس معاشرے میں لوگ زندگی کو ترس رہے ہیں، وسائل نہ ہونے کے باعث وہ اپنا علاج نہیں کراسکتے ، یہاں تو معمولی بخار کا علاج بھی ہزاروں میں ہوتا ہے، ہسپتالوں کی حالت زاراس قدر قابل رحم ہے کہ مریض تو مریض تیماردار بھی مریض بن جائے ، یہاں سرکاری ہسپتالوں کی ادویات پرائیویٹ میڈیکل اسٹور سے برآمد ہوتے ہیں، جعلی ادویات کی بھرمار سے ہسپتالوں کی مشینری زنگ آلود ہے، انسانی مسیحا مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جب چاہیں ہسپتالوں میں او پی ڈیز کا بائیکاٹ کر کے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے پہنچ جاتے ہیں، جنہیں انسانیت سے کوئی ہمدردی نہیں، البتہ اپنی شہرت کی پروا ضرور ہے ،ایم پی اے حضرات چاہے پولیس کی حراست میں ہو یا اسمبلی کے ایوانوں میں سب ایمبولینس کی چابیاں دینے سے قبل فوٹو گرافر حضرات کو مدعو کر نا نہیں بھولتے، سانحہ آٹھ اگست کے نیم مردہ وکلاء کوخون سے شرابور حالت میں ہسپتال کے احاطے سے ہی سی ایم ایچ منتقل کیاگیا جو ڈیشل کمیشن کے آگے ہاتھ باندھے سرجھکائے ذمہ دار آج بھی صوبے میں ہسپتالوں کی حالت کی بہتری کے دعوے کس منہ سے کرتے ہیں، نہ کوئی ندامت نہ کوئی افسوس ایک کان سے سنا دوسرے سے نکال دیا، گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک اور نوجوان تنویر احمد سمالانی کی تصویر جو ایک المناک ٹریفک حادثہ میں شدید زخمی ہواتھا اور گزشتہ پانچ برس سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے، تنویر دونوں پاؤں سے مفلوج ہے، اپنے علاج کیلئے کسی مخیر حضرات کی تلاش میں ہے، جو اسے محض چندلاکھ روپے دیکر دوبارہ کار آمد بننے میں مدد کرسکتا ہے، گزشتہ پانچ برس کے دوران تنویر کے والد جو ایک سرکاری ملازم ہے نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونچی اس پر لگا دی ہے، مگرتنویر آج بھی وہیل چیئر پر بیٹھا محکمہ صحت پر خطیر رقم صرف کرنے اور بلندوبانگ دعوے کرنے والوں کا منہ چھڑارہا ہے ، تنویر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہے، جس نے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کررکھا ہے ،جامعہ بلوچستان سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے، موصوف نے بیماری کی حالت میں بھی اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا ہے، اپنے نئی زندگی شروع کئے چند ہی روز گزرے تھے کہ کراچی سے کوئٹہ آتے خضدار کے مقام پر ٹریفک حادثہ کا شکار ہوگیا، المناک حادثہ نے تنویر کومفلوج کر رکھا ہے، انڈیا میں اس کا علاج ممکن ہے، جہاں ڈاکٹروں نے علاج کیلئے تیس لاکھ روپے تک خرچہ آنے کی پیشنگوئی کی ہے، یہ وہ رقم ہے جس سے تنویر ایک کار آمد شہری بن سکتاہے، مگر اس کے والد کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اس کا علاج بیرون ملک کروا سکیں نہ ہی کوئی جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ عوامی نمائندگی کے دعویداروں کی توجہ تنویر کی جانب مبذول کروا سکیں، تنویر کی رسائی اقتدار کے ایوانوں میں موجود حضرات تک نہیں مگر تنویر تک سب کو رسائی حاصل ہے، اگر کوئی چاہے تنویر کے گھر چائے پینے جاسکتا ہے جہاں نہ کوئی سیکورٹی حصار ہے نہ ٹائم لینے کی پابندی جب چاہے کسی بھی وقت اس کو مل سکتا ہے، اس کی داد رسی کرسکتا ہے، چند لاکھوں کے عیوض تنویر ایک کار آمد شہری بن سکتا ہے، اگر کوئی چاہے