|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2016

کوئٹہ : بلوچ رابطہ اتفاق تحریک کے قائد پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ لاہور اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بلوچوں کو زیر عتاب رکھ کر ان کے وسائل لوٹنے کی ہے ، جمہوریت کے ٹھیکیدار اور مخصوص مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کی گٹھ جوڑ بلوچ عوام میں احساس محرومی کو پروان چڑھانے کا موجب بن رہی ہے جس کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ہم ملک توڑنے والے نہیں بلکہ بنانے والے ہیں ،بتایاجائے کہ کیا پاکستان کی بیوروکریسی میں بلوچستان کاحق نہیں ،اقتصادی راہداری سے متعلق بلوچ عوام کو حقائق سے آگاہ کیاجائے محض ایک سڑک بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان قلات کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ 1988 سے صرف چہرے تبدیل ہورہے ہیں پالیسیاں تسلسل کے ساتھ بلوچ دشمن ہی چل رہی ہیں ، بلوچوں کو مین سٹریم سے علیحدہ رکھ کر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ، پاکستان کو اگرچلانا ہے تو قائد اعظم اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے وژن اور فارمولے کے تحت چلانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ دیدہ دانستہ طور پر بلوچوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے سرکاری ملازمتوں میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق لگ بھگ 40 فیڈرل سیکرٹریز ہیں جن میں سے 36 کا تعلق لاہور سے ہے کیا باقی پاکستان کو بیوروکریسی میں نمائندگی کا حق نہیں ہے بلوچوں کو عزت اور انصاف ہمیشہ مارشل لاء میں ملا ہے اگرچہ فوج میں پنجابی اکثریت میں ہیں مگر ان کی ذہنیت پاکستانی ہے فوج بلوچوں کی اہمیت کو سمجھتی ہے ۔ پرنس محی الدین کا کہنا تھاکہ میری معلومات کے مطابق پاک فوج میں 7 سو بلوچ آفیسر اور کم و بیش 25 ہزار بلوچ جوان خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ بلوچستان کے بغیر پاکستا ن مکمل نہیں ہوسکتا ۔ 1947 میں قائد اعظم اور خان آف قلات کی سیاسی بصیرت نے پاکستان کو مکمل کیا آج لاہور کو یہ گوارہ نہیں کہ کہا جائے کہ پاکستان کی تکمیل میں بلوچوں کا کردار تھا ۔ سیاستدانوں / جمہوریت والوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کرپشن کے لئے گٹھ جوڑ کا کردار تھا ، بلوچوں کے اربوں روپے ہر سال لوٹے جاتے ہیں بیوروکریٹ کے گھر سے 60 کروڑ روپے برآمد ہونا اس کی مثال ہے یہ بلوچوں کی دولت ہے جو کہ کرپشن کی نذر ہورہی ہے ۔ بلوچستان میں سیاسی بیداری اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانے میں اولین اور مرکزی کردار خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا ہے ۔ بلوچستان میں رہنے والے پشتون اگر الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں توتاریخی سرحد سب کو معلوم ہیں ہمیں پشتونوں کے الگ صوبے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ میں پشتونوں کو یہ مشورہ دوں گا کہ علیحدہ صوبہ لینے کی بجائے وہ خیبر پشتونخوا کے ساتھ الحاق کریں یہ ان کے مفاد میں زیادہ بہتر ہوگا ۔ اسٹیبلشمنٹ کو راہ راست پر آنا ہوگا اگر نہیں آیا تو اسے لایا جائے گا بلوچ قوم اپنا حق ملنے کے انتظار میں ہیں ۔پرنس محی الدین بلوچ کاکہناتھاکہ حکومت مزاحمتی لیڈران کو مارنے کا دعویٰ کرتی ہے ان کی تصاویر جاری کئے جاتے ہیں اور پھر ہفتہ دو ہفتے بعد ان کے بیانات آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ صاحبان اقتدار اپنے گھروں سے نکل نہیں سکتے وہ امن اور جمہوریت کیسے قائم کریں گے نہ ہی ان کو کسی کی عزت اور توقیر کا کوئی پاس ہے ان کے برعکس فوج میں عزت ، وقار اور پاس وضع ہے ۔ ہم پاکستان کے مخالف نہیں بلکہ پاکستان کو بنانے والے ہیں مگر ہمارے وسائل کو لوٹ کر ہمیں پسماندہ رکھنے کا فارمولا مزید نہیں چلے گا ۔ انہوں نے کہا کہ شروع کے دنوں میں پاکستان معاشی طور پر سوئی کے گیس ہی سے مستحکم ہوا ۔ اب بھی بلوچستان کے وسائل پاکستان کی معیشت میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں مگر بلوچستان کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ سی پیک کے بارے میں بلوچوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جائے کہ عام بلوچ کو اس منصوبہ سے کیا فائدہ حاصل ہوگا عوام کی زندگیوں پر کون سے فوائد حاصل ہوں گے ۔ یوں ہی سڑک بنا کر عوام کو ورغلانے سے کام نہیں چلے گا ۔ بلوچستان کے عوام کی مناسب حصہ اور روزگار ملنا چاہیے ۔