وہ شخص جو کراچی کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی میں اپنا کیمرہ لہراتے ہوئے، زندگی کے ہر لمحے کو قید کرتا ہے اور زندگی کے عکس دوسرے دن پورے سماج میں پھیلاتا ہے، ہر برائی کو فلیش مارتے ہوئے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے ظلمتوں کے عکس بناتا ہے، یہی تو اس کا گناہ ہے وہ اس شہر کا بہت بڑا گناہ گار ہے، مار ڈالو،کون پوچھے گا،؟ کوئی بھی نہیں، بھلا کسی دہشت گرد کو مارنے پر کبھی سوال اٹھتا ہے کیا؟ وہ دہشت گرد جو فوٹو جرنلسٹ بھی، بلوچ بھی ہو، اور سب سے بڑی بات کہ لیاری میں رہتا ہو، رات گئے تک پریس کلب سے اپنی پرانی پھٹپھٹی پر سوار ہوکر لیاری کی تنگ گلیوں میں سرد راتوں کا یہ مسافر قانون کے رکھوالوں کی نظر میں گینگ وار کا بندہ ہے، تب ہی اس غریب شخص کے گھر میں گھستے وقت قانون کے رکھوالوں نے یہ نہیں سوچا کہ اکبر بلوچ غیرت مند صحافی بھی ہے اور جب آپ ایک عزت دار شخص کی بیوی ،بیٹیوں کا احترام نہیں کروگے تو وہ مزاحمت تو کرے گا۔ اکبر بلوچ نے اپنے زندہ ضمیر کے ساتھ قانون کو چادر اور چار دیواری کا تقدس یاد دلایا، تو اکبر کو ڈراتے ہوئے کراچی آپریشن کے نگہبانوں نے دھمکی سے نوازا کہ : سب پتہ ہے کہ تم گینگ وار کے ہو: اور ایک بزرگ کو دھکے دے کر اس کی عزت نفس کو زخمی کردیا۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے اس کو عزت اور نفس سے بھلا کیا تعلق۔۔ ہاں اکبر بھائی مان لو کہ آپ گینگ وار ہو۔ لیاری میں رہنے والے لاکھوں بلوچ سب کے سب گینگ وار ہی تو ہیں، سب کو مار ڈالیں، سب سے پہلے اکبر کو نشانہ بنائیں، کیونکہ اکبر زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے پاس کیمرہ بھی ہے ، قلم بھی ہے، وہ عالمی شہرت بھی رکھتے ہیں، زیادہ تر لوگ تو اس کو افریقی فوٹو گرافر سمجھ کر انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ اکبر کے پاس کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کے کارڈز بھی ہوں گے، یہ تو اور بھی خطرے کی بات ہے، یہ سب خطرے اکبر سے وابستہ ہیں، وہ انسان دوست شخص ہے، نازک مزاج رکھتے ہیں،لیکن ہے لیاری کے بلوچ ،غلط ایک بات بھی نہیں سن سکتا، جب غلط دیکھتا ہے تو چیختا بھی ہے،شور بھی کرتا ہے اور جب اس کا بس چلتا ہے تو ہاتھ بھی صاف کر لیتا ہے۔ مار ڈالیں، کون پوچھے گا، اب تو صحافتی تنظیمیں بھی نظریے سے خالی بانجھ پن کی شکار وہ مائیں بن چکی ہیں جن کی کوکھ میں ہی ضمیر دفن ہو چکا ہے تو وہ بھلا وردی کی سرکار کو کیا کر سکتی ہیں ؟ کچھ نہیں ہوگا بندوق کی نوک کو، جب چاہو جس کی بھی چاہو گردن اڑا دو ورنہ کراچی آپریشن کا کفارہ کیسے ادا ہوگا۔ پریس کلب کے دروازے پر اکبر کے حق میں اٹھنے والے دو چار نعرے لگا کر بیس پچاس صحافیوں کے گلے خشک ہوجائیں گے، بندوق کو کچھ نہیں ہوگا، کیونکہ ان نعروں میں ” یہ جرنل کرنل۔۔۔۔۔۔۔۔ ” والی گونج نہیں ہوگی۔ اب ہمارے نعرے بے اثر ہی نہیں بے معنی بھی ہو چکے ہیں، لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی نہیں چلے گی۔۔ جھوٹ سب سے بڑا جھوٹ۔۔ بھائی برسوں سے لاٹھی گولی کی سرکار ہی تو چل رہی ہے، لاٹھی کے سامنے جمہوریت کی بھینس بھی گولی کھانے سے ڈر رہی ہے۔ تو بڑی سرکار کو چھوٹی سرکاریں کیا کر سکتی ہیں، اس ملک کے عوام تو غلام ابن غلام ہیں،ہاں جی ہم سب غلام ہیں آپ ہمارے آقا، ہماری مجال کیا کہ ہم یہ تقاضا کریں کہ آپ لانگ بوٹوں کے ساتھ ہمارے گھروں میں کیوں گھستے ہیں، ہماری ماؤں بیٹیوں کا احترام کیوں نہیں کرتے، کیا کبھی غلاموں نے ایسا تقاضا کیا کہ اکبر بلوچ کرتا ہے۔ لیاری کا سیاہ فام یہ شخص امریکی صدر باراک اوباما تو نہیں ہے کہ کوئی اس سے بھی ڈرے، یہ لیاری کی زمین سے جنم لینے والا وہ بلوچ ہے جنہوں نے کراچی کی بندر گاہ کو تعمیر کیا اور جب کلاچی ایک جدید شہر بننے لگا۔ یہ تو کراچی کی سینکڑوں برسوں کی تہذیب کا وارث ہے اور جس نے اپنے کیمرے سے کراچی کے کروڑوں مناظر کی عکس بندی کی ہے۔ اکبر بلوچ کے گریباں کو کھینچنے والوں نے انسانیت کی گریباں کو تو چاک کر لیا لیکن قانون کے احترام کی بہت بڑی ڈھینگیں مارنے والے وفاقی وزیر داخلہ کی آنکھیں چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی نہیں کھل سکی ہیں۔ حاکم بھلا اکبر بلوچ جیسے شخص کے لئے اپنی نیندیں بھی کیوں خراب کریں ؟ ہر شخص کے ساتھ انتہائی احترام کے ساتھ پیش آنے والا اکبر بلوچ میری نظر میں انتہائی محترم شخص ہیں اور ان کو گریبانوں سے پکڑنے والے لوگغلط ہو سکتے ہیں۔ اکبر بلوچ سمیت ہم سب اس گناہ میں شریک جرم ہیں، ہم سب کو مار ڈالو، شیخ ایاز کی زبانی کہ۔۔۔
کیچڑ سے نکلنے والا
نیل کنول بھی تو مجرم ہے
اور جب کوئی چکور
اندھیارے میں آسماں کی طرف
اڑتا ہے تو وہ بھی مجرم ہے
یہ جرم نہیں، انساں کی مٹی
دوبارہ گوندھی ہے میں نے۔۔