|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2016

غُربت بیماری اور بے بسی کسی گرم تپتے صحرا میں وہ بدنصیب اور بھٹکے ہوئے مُسافر ہیں جو اپنی برسوں کی پیاس بُجھانے زندگی کی ختم نہ ہونے والی طویل مُسافتیں طے کرنے ، گرم آلود ہواؤں کے تھپیڑوں میں ریت کے ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے کو سر کرتے بوجھل اور نڈھال قدموں کے ساتھ آنکھوں کو دُور سے فریب دینے والی جھوٹی آس میں پانی کی ایک گھونٹ کو ترستے زندگی کی تلاش میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر مارا مارا پھرتے ہیں۔ بے رحم تقدیر کا سوانیزہ سورج آگ کے گھولے برساکر اُنکے جُھلسے ہوئے وجود کو اور بھی وحشت اور اذیت ناک بنا دیتا ہے۔ جُہد مسلسل کے مُتلاشی ہر بدنصیب مُسافر جب موت کے بے رحم اور طاقتور پنجوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے ہوئے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ جب جان کی بازی ہار جاتے ہیں تو ہزاروں ارمان اور خواہشیں اِنکی لاشوں پے نوحہ کُناں اور ماتم کرتے ہوئے وقت کے دُھول میں چُھپ جاتے ہیں۔ سماجی روّیے سیاسی اِقدار کے بے رحم بھوکے گِدھ اپنے حصے کے بھوک مٹانے کے بعد پھر ایک نئے شکار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ اِس تپتے صحراء کی وادیوں میں اب بھی ریحان رند اور ولید جیسے سینکڑوں انسان کینسر سے شکست کھاچکے ہیں۔ بدنصیب مُسافِروں کے قدموں کے نشان باقی ہیں جو اِس گونگے بہرے اور سوئے ہوئے معاشرے کی ضمیر کو جگانے کیلئے کافی ہیں۔ کئی صدیوں سے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کیلئے صرف ریحان اور ولید جیسوں کی آہیں اور درد بھری چیخیں جگانے کے لیئے کافی نہیں ہوتے اِنہیں جگانے کیلئے اب کئی برسوں تک اور بھی بے بس سے سکتے چیخوں کی ضرورت پڑے گی۔ ریحان ہمیں معاف کردیں ہم 21ویں صدی کے لبرل سوچ رکھنے والے اور مساوات کے ترازو ہاتھ میں لیے ترقی کے دعویدار سبز باغ دِکھانے والے دہرے چہروں کو معاف کردیں اور ہم صرف فیس بُک پر آپکی جوانی پر ترس کھاکر آپکی افسردہ تصویر اور التجائیہ پوسٹس کے بوجھ کو ایک دوسرے کے کندوں پر شیئر کرکے دُعائیہ کمنٹ لکھ کر باقی سب اللہ اور قسمت چھوڑ کر افسوس کی ایک سرد آہ بھر کر پھر سے اپنے دھندوں اور کاموں میں مگن رہنے والے وہ لوگ ہیں جنکے ہاتھ اور پاؤں بے حِسی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں یہ ہاتھ نہ کمزور ہاتھوں کو تھام سکتے ہیں اور نہ یہ قدم کسی مجبور کو کنویں میں گِرنے سے روک سکتے ہیں۔ کینسر نام بذاتِ خود وحشت کی علامت اور موت کا پیغام ہوتا ہے یہ نام جب سماعت کی دیواروں سے ٹکراتا ہے تو پورے بدن میں کپکپی سی طاری ہوتی ہے، وجود کی سماعت کی دیواروں پر خوف کے سائے دراڑیں ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور زندگی کی چراغ کو گل کردینے والی طوفان کا خوف موت سے پہلے مار دیتا ہے سب رشتے ناتے اور اپنے ایک ایک کرکے چور دروازے سے بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔ بچپن سے اپنی ماں باپ کو غُربت تنگدستی اور آزماہشوں کی چکی میں پستے دیکھ کر جوانی کی دہلیز تک قدم رکھنے والی طاہرہ نصیر یہی سوچ کر سکول جانے لگی کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر کسی مقام تک پہنچ سکے تاکہ اپنی بے بس غریب والدین کے دھکوں کا کچھ مداوہ کرکے دوسری بہنوں کو پڑھا لکھا کر اِس قابل بنائے۔ اُسکی والدین اِس بات پر پشیمان بھی نہیں کہ اُنکا کوئی بیٹا (نرینہ) اولاد نہیں ہے اُسکا باپ اَن پڑھ ضرور ہے مگر اِس بات سے بخوبی واقف ہے کہ بیٹیاں بھی اولاد ہوتی ہیں اگر اُنکو اچھی تعلیم و تربیت دی جائے تو وہ بھی بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارا بن سکتی ہیں اُسکی والد نصیر ایک مزدور اور ٹرک ڈرائیور ہے اور ہوائی روزی سے زندگی کی گاڑی بمُشکل چل رہی ہے جس دن مزدوری یا ڈرائیوری کا سکہ جم جائے تو گھر کے دالان سے دال، آلو پکنے کی مہک اُن کیلئے کسی شاہی کھانے سے کم نہیں ہوتی اور جس دن بازار سے خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں تو صرف دالان کے چولہے ہی نہیں بلکہ اُسکی طرف دیکھنے والی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑتی ہے۔ وہ ابھی غُربت کے آزمائشوں سے نبرد آزماہی تھے کہ بیماری کی آزمائش نے گھر کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی۔ شدید درد نے جب طاہرہ نصیر کو ڈاکٹر کے پاس جانے کیلئے مجبور کیا تو وقتی طور پر دواؤں کے اثر سے درد کچھ کم ہوا جب دواؤں کا اثر ختم ہوا تو شدید درد کے ساتھ گُھٹنے کی جگہ پر ایک گوشت کا پہاڑ اُبھرنے لگا اور پاؤں پر بھاری بوجھ کی وجہ سے چلنا پِھرنا مشکل ہوا۔ مگر اِس بار ڈاکٹر نے کچھ ضروری ٹیسٹ اور چیک اپ کی بھاری اخراجات کا کہہ کر اس بات کا انکشاف کیا کہ یہ کینسر کی ایک قسم ہے جسے ٹیومر کہتے ہیں اور اِسکا آپریشن اشد ضروری ہے۔ اِس منحوس خبر نے نہ صرف طاہرہ نصیر بلکہ سب گھر والوں پر سکتہ طاری کردیا بے چارہ والدین سر پکڑ کر بیٹھ گئے اب اِس غریبی تنگدستی میں کریں بھی تو کیا کریں۔ جوکچھ بھی جمع پونجی بچا کُچھا رہ گیا تھا سب طاہرہ نصیر کی بیماری اور آپریشن پرصرف ہونے لگی کچھ بھی نہیں بچا۔ مشکل وقت میں سب سے پہلے اپنے یاد آتے ہیں مگر اپنوں کی بے رُخی اور لاپروائی سے اِس رشتے سے اعتبار بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نصیر نے اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کیلئے اپنوں میں جس جس کے دروازے پر دستک دی وہ دروازے آج تک اُن کیلئے بند ہیں۔ پانی جب سر سے گزرنے لگے تو انسان مجبور ہوکر ضرور کوئی نہ کوئی قدم اُٹھاتا ہے۔لا علاج بیماری کے اِخراجات کا بوجھ اور گھر میں پہلے سے فاقوں اور مُفلسی ے نصیر کو توڑ کر رکھ دیا۔ مصیبت کے اس اندھیرے غار میں روشنی کا صرف ایک ہی کِرن دکھائی دے رہا تھا اور وہ تھا سماج اور لوگوں کے سامنے بے بسی بے چارگی کی چادر پھیلا کر ہمدردی اور مدد کی بھیگ مانگ کر گھر کے بُجھتے چراغ کی لَو کو اِس موذّی طوفان کے زور سے بچانا۔ مشرقی روایات سے ذرا ہٹ کر دیکھیں تو بلوچ معاشرے میں عورت کی عزت اور ننگ و ناموس کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ بلوچ قبائلی خونی جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے بلوچ عورتیں ہمیشہ امن کی فاختہ بن کر میدانِ جنگ سے سُرخ رو اور عزت کی چادر اوڑ کرجدی پُشتی جھگڑوں کی دیواریں گِرا کر صُلح کی پیغام لے کر آئی ہیں۔ آج ایک بلوچ بیٹی زمانے کی گردشوں اور بیماری کی آزمائشوں میں تنہا کھڑی زندگی کے میدانِ جنگ میں اِس طوفان کا مقابلہ کر رہی ہے اور مدد کیلئے دستِ دراز التجائیہ نظروں سے بلوچ روایات کی پاس رکھنے والی سماج کی طرف دیکھ رہی ہے۔ بحیثیت باپ اور بھائی کے ہم سب پر اِس سماج کے تمام افراد کا انسانی اور اِخلاقی فرض بنتا ہے کہ اپنی بیٹی بہن طاہرہ نصیر کی مدد کریں ہم میں سے جس سے جتنا بھی ان کی حیثیت کے مطابق گنجائش بنتا ہے اپنا سماجی فرض اور حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اِخلاقی سماجی حقوق ادا کرنے اور اِس مظلوم بے بس بہن طاہرہ نصیر کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین