لندن : بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 68 سالوں سے بلوچ قوم ظلم جبر اور زیادتی کا شکار ہے ،بلوچ قوم کے خلاف حکمران بڑے پیمانہ پر جنگی جہاز اور اپنی فضائیہ استعمال کررہا ہے ،بلوچ ہر جگہ وحشت اور بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ،ویسے ہی کراچی میں رہنے والے بلوچ بھی ظلم جبر اور زوراکی سے محفوظ نہیں ہیں جہاں انھیں پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاست دانوں نے قابض کے ایجنڈے کے تحت بلوچ جدوجہد آزادی ، تعلیم ،صحت اور کھیل سے دور کرکے منشیات کا عادی بنانے کے ساتھ ساتھ ،گینگ وار میں جھونک دیا اور حکمرانوں کی ہدایت پر گینگ وار کے نام پر کراچی میں قومی جدوجہد آزادی سے منسلک اور کراچی میں بلوچوں کے آواز بن کر ابھرنے والے تمام قوم دوست ،تعلیم یافتہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ برطانوی سامراج نے جب بلوچ علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تب کراچی کے بلوچ سپوتوں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت کا راستہ اپنایا اس کی واضع مثال چاکر نوتک کی جدوجہد ہے جس کو بلوچ سرزمین کی دفاع کے جرم میں کراچی میں پھانسی دی گئی۔ حیربیار مری نے مزید کہا کہ میڈیا کراچی میں مقیم بلوچ عوام کو ہمیشہ غیر مہذب اور اپنے پیدا کردہ گینگ وار سے جوڑ کر بلوچ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔کراچی کے مقامی بلوچوں کی تہذیب ، طاقت اور ترقی کی تاریخ آج بھی چوکنڈی کے قبرستان سے جھلکتی ہے جسے آسانی سے مسخ کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اپنے الیکشن اور ووٹ کی خاطر غلط طریقہ سے بلوچوں کو استعمال کرتے ہوئے بلوچی قاعدے اور اقدار تبدیل کرنے پر تلہ ہوا ہے ، کراچی کے بلوچوں کا حقیقی راستہ وہی ہے جس پر صبا دشتیاری ، ستار بلوچ ،شفع بلوچ،سمیت بہت سے دوسرے بلوچ گامزن تھے۔ کراچی کے یہ بلوچ آج بلوچ قومی آزادی کے علامت بن چکے ہیں جوظلم کے خلاف آخری دم تک ڈٹے رہے اور قومی آزادی کا پرچار کرتے رہے ۔ حیربیار مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بلوچ کارکنوں اور رہنماوں کو شہید کرنے کے لیے مارو اور پھینک دو پالیسی اختیار کی گئی جس کے ذریعے چن چن کر بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا گیا ۔وہی تسلسل ابھی تک جاری ہے ، بلوچ نوجوانوں کو اٹھا کر غائب کیا جار ہا ہے ان کی مسخ لاشیں پھینکی جارہی ہے ۔ اب تو فورسز نے بلوچ عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا ۔ فورسز بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ خواتین کو اغوا کر رہی ہے جس کی تازہ مثال بولان میں فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی اغوا ہے۔ بلوچ قوم نے اگرفورسز کے اس عمل کا راستہ نہیں روکا تو کل بلوچستان میں کسی کا بھی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہوگا۔ بلوچ رہنما نے کہا کراچی کے بلوچ پیپلز پارٹی اور سیاست دانوں کے فریب سے خود کو آزاد کرکے اپنی قومی شناخت، الگ پہچان کی خاطر قومی جدوجہد آزادی کے کارواں کا ساتھی بنیں اور اپنی طاقت قوت اور صلاحتیں پیپلزپارٹی کے بجائے بلوچ قومی جدوجہد کی کامیابی کی خاطر صرف کریں کیونکہ بلوچ قوم کی سربلندی اور کامیابی میں تمام بلوچوں کی کامیابی ہے وہ پیپلز پارٹی کس طرح بلوچوں کا ہمدرد بن سکتا ہے کہ جس کے بانی نے 1973-1978میں بلوچستان میں آپریشن کیا اور ہزاروں بلوچ فرزندوں کو قتل کروایا۔ کراچی میں بلوچوں کے ساتھ ہمیشہ سے تیسرے درجے کی شہری کا سلوک کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اب کراچی کے بلوچ عوام حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے خود کو پیپلز پارٹی کے اثرو رسوخ سے نکال کر اپنی قومی شناخت کی خاطر بلوچ قومی جدوجہد کا زیادہ سے زیادہ حصہ بنیں تاکہ بلوچ قوم کو قومی غلامی ،غربت،بھوک وافلاس اور بے تعلیمی جیسے قابض کی طرف سے پھیلائی گئی مہلک امراض سے شفا اور نجات مل سکے اور وہ اپنی قومی شناخت کو بچاسکیں۔