بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے آئینے میں اگر حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بلوچستان سیاسی حوالوں سے ایک زرخیز زمین رہی ہے جہاں کی ماؤں نے ہر دور میں اپنے بطن سے ایسے بہادر سپوت جنم دئیے کہ جنہوں نے اپنی دھرتی ماں کی دفاع اور قومی کاز کے لئے اپنے آپ کو وقف کرکے رکھ دیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان کے طالبعلم ، نوجوان اور بزرگ ہر دور میں اور ہر قسم کے حالات میں سیاسی شعور کی بلندیوں پر نظر آئے کیوں کہ فرزندان بلوچستان فقط جذباتی بنیادوں پر زندہ باد و مردہ باد کی سیاست کے حامی نہ تھے بلکہ انہوں نے سیاسیات کے علم کو پڑھتے اور سمجھتے ہوئے اس کی اصل روح کے مطابق اس میں اپنا عملی کردار ادا کیا یہی وجہ ہے کہ سیاسی حوالوں سے بلوچستان کی زمین نے ایک بڑی تعداد میں سیاسی لیڈرز اورنظریاتی طور پر پختہ ورکرز پیدا کئے ۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن کے قیام سے قبل اور پھر اس کے بعد بلوچستان کی سیاست میں ہمیں ایک واضح فرق یہ نظر آتا ہے کہ بی ایس او سے قبل یہاں کی روایتی سیاست اور لیڈٖر شپ پر قبائلیت یا پھر قبائلی سرداروں کی ایک گہری چھاپ نظر آتی ہے جبکہ بی ایس او نے ایک اہم کام یہ کیا کہ اس نے بلوچ طلبا اور پھر عام لوگوں کو نظریاتی سیاست سے وابستہ کرتے ہوئے ان کی سیاسی و نظریاتی تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کیا ، جس کے تناظر میں ہمیں بلوچستان کی سیاست میں جذباتی وابستگی کے بجائے ایک نظریاتی و فکری وابستگی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
بلوچستان کے عوام کی نمائندہ سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) کے خاتمے اور بزرگ سیاسی رہنماؤں کے بکھر جانے کے بعد بلوچستان میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا پیدا ہوا، کیوں کہ نیپ کے بعد بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر کوئی ایسی جماعت نظر نہیں آئی کہ جو منظم طور پر سیاسی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ملکی و بین الاقوامی سطح پر بلوچستا ن کے عوام کی بھر پور نمائندگی کرسکے ، اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وقت و حالات کے عین مطابق ایک طالبعلم تنظیم کی حیثیت سے بی ایس او نے کسی حد تک اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی اور تاریخ گواہ ہے کہ بی ایس او اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہی کیوں کہ بی ایس او نے بلوچستان کے عوام کو عملی سیاست سے وابستہ رکھتے ہوئے ان کو نظریاتی و فکری طور پر پختہ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بلوچستان کی پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاست میں جتنی بھی لیڈر شپ نظر آتی ہے ان کی اکثریت بی ایس او کی پیداوار ہے اس لئے بلوچستان کی عملی سیاست میں بلوچ طالبعلموں کی تنظیم بی ایس او کے گرانقدر کردار کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سیاست میں کافی اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز دیکھنے کو ملے اور سیاسی تقسیم کاری (Political ploriozation) کا ایک نہ رکنے والا عمل بھی ہمیں دیکھنے کو ملا ۔ 1986میں بی ایس او کی تقسیم کے نتیجے میں بی ایس او (پجار) اور بی ایس او (سہب ) کے منظر عام پر آنے کے بعد بلوچستان کی سیاست کا ایک نیا رنگ دیکھنے کو ملا وہ بلوچ طالبعلم جو نظریاتی و فکری طور پر Commited تھا سیاسی اختلافات کے نام پر اس کو اتنا جذباتی کردیا گیا کہ وہ برادر کشی پر اتر آیا اور اپنے ہی طالبعلم بھائی کو مارنے ، دھمکانے یہاں تک کہ اس کوقتل کرنے سے بھی باز نہ آیا جس کے نتیجے میں فدا بلوچ اور سلیم بلوچ کی شہادتیں بلوچ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں، اور ملا ستار شدید زخمی کئے جاتے ہیں ، کراچی کے ایک کالج میں دونوں گروپس میں فائرنگ کے تبادلے میں پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم ابراہیم بلوچ اپنی ایک آنکھ سے محروم کردئیے جاتے ہیں، لیاری کے تین اہم سیاسی ورکرز بابا صمد، سکندر اور سلیم بلوچ کو چاکیواڑہ کے مین چوک پر گولیوں کا نشانہ بنا کر زخمی کردیا جاتا ہے۔برادر کشی کے اس جنگی ماحول میں بہت سے بلوچ طالبعلموں کا تعلیمی عمل بہت بری طرح متاثرہو جاتا ہے اور اس بھیانک عمل سے بہت سے بلوچ خاندان متاثرہو جاتے ہیں۔ برادر کشی کا یہ عمل بلوچ تاریخ میں چاکر و گوارام کی تاریخی جنگ کے بعد ایک نئی تاریخ کو جنم دیتا ہے ۔
بی ایس او کی اس تقسیم کاری نے نہ صرف بلوچ طالبعلموں کو بلکہ پورے بلوچ معاشرے کو تقسیم کرکے رکھ دیا جس کے اثرات بلوچ نوجوانوں پرکچھ اس طرح مرتب ہوئے کہ وہ بلوچستان نیشنل یوتھ مومنٹ(بی این وائی ایم ) اور پروگریسیو یوتھ موومنٹ (پی وائی ایم ) کی شکل میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے اور یہ دونوں تنظیمیں بی ایس او کے دونوں گروپس کو اپنے پاکٹ آرگنائزیشن کے طور پر استعمال کرتے رہے۔1987ء میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی قیادت میں بی این وائی ایم کی تشکیل ہوئی جو 1988کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم پربزرگ سیاسی رہنما میر غوث بخش بزنجو کے خلاف مورچہ زن ہوئی اور(مئے نشان ہرگ انت ، بزنجو ہشکیں گرگ انت) کے نعرے کے ساتھ پیراں سالی میں میر غوث بزنجو کو شکست سے دوچار کرگئی ،اس انتخابی شکست کے نتیجے میں بزرگ بلوچ سیاسی رہنما میر غوث بخش بزنجو کافی حد تک دل برداشتہ ہوئے اور پھر تاریخ کا جبر دیکھئے کہ میر غوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل خان بزنجو آج اسی نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں کہ جس کے لیڈران نے بی این اے کے پلیٹ فارم سے میر غوث بخش بزنجو کی شکست میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دوسری طرف پی وائی ایم کے بطن سے تشکیل پانے والی شہید حبیب جالب کی پروگریسیو نیشنل موومنٹ (پی این ایم ) عوامی سطح پر پزیرائی نہ ملنے کے سبب سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی میں ضم ہوئی اور بی ایس او سہب بی این پی کی ذیلی تنظیم بی ایس او (رضا شاہ ) کے ساتھ انضمامی عمل میں آگئی۔
1992ء میں بی این ایم دو حصوں میں تقسیم ہوکر بی این ایم حئی اور بی این ایم مینگل کی شکل میں سامنے آتی ہے ،1997میں بی این ایم مینگل اور پی این پی میں انضمام کے نتیجے میں بی این پی تشکیل پاتی ہے، اور 1998میں بی این پی کی تقسیم کاری کے نتیجے میں بی این پی عوامی منظر نامے پر آجاتی ہے ، 2005میں بی این ایم حئی اور حاصل بزنجو کی بی این ڈی پی کے انضمامی عمل کے بعد نیشنل پارٹی کاقیام عمل میں آتا ہے، اور اس انضمام کی مخالفت میں بی این ایم کا ایک دھڑا شہید غلام محمد بلوچ کی قیادت میں اپنی الگ شناخت بنا لیتی ہے جو بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو بلوچستان کی آزادی سے جوڑتے ہوئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے آگے چل کر بلوچستان نیشنل مومونٹ سے بلوچ نیشنل موومنٹ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
اوپر بیان کی گئی سیاسی تقسیم کاری کے اس طویل عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی ایس او کی تقسیم کاری کے بعد بلوچستان کی پوری سیاست تقسیم کاری سے دوچار ہوئی اوربلوچ سیاست میں نئی صف بندیاں سامنے آنے لگیں جس کے نتیجے میں بلوچستان میں نظریاتی و فکری سیاست کی جگہ پارلیمانی سیاست نے اپنے پنجے گاڑ دیئے اور اب نظریاتی طور پر منظم و مستحکم ورکرز مراعات کی سیاست سے متاثر دکھائی دینے لگے۔اب بلوچ سیاسی ورکرز کی شب و روز کی محنت، نعرے بازی اور الیکشن کمپئن کے نتیجے میں بلوچ لیڈر شپ اسمبلیوں کی زینت بننے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ تقسیم کاری کا عمل بھی جاری و ساری تھا ۔
2000ء کے بعد بلوچستان کی سیاست نے ایک نئی کروٹ اس وقت لی جب بلوچستان کی آزادی کی تحریک بڑی شدت کے ساتھ سامنے آئی جو پارلیمانی سیاست کو رد کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کا سلوگن لے کر سیاست کے خار زار پر متحرک ہوئی ،کچھ آزادی پسند تنظیموں اور شخصیات نے مل کربلوچستان نیشنل فرنٹ کے نام سے ایک اتحادتشکیل دی جس نے عوامی سطح پر بلوچ آزادی کی جدوجہد کو منظم و متحرک کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں لگی آگ کے شعلوں نے پورے بلوچستان اور خصوصا مکران کو بڑی شدت کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لے کر سیاسی میدان میں اترنے والی لیڈر شپ اور ورکرزکے لئے بلوچستان کی زمین تنگ کردی گئی اور بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے دعوے کے مطابق ایک بہت بڑی تعداد میں بلوچ طالبعلموں ، نو جوانوں اور سیاسی ورکرز کو لاپتہ کردیا گیا اور ان میں سے بہت سے نوجوانوں کی لاشیں بھی سامنے آچکی ہیں ۔ ان حالات میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی پوری لیڈر شپ بلوچستان سے باہر بیرون ملک رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئی اور وہیں سے اپنی تحریک کو بین الاقوامی طور پر متحرک کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
تاریخی طور پر سیاسی نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج بلوچستان سیاسی طور پر جمود کا شکار نظر آتا ہے ، پارلیمانی سیاست کے دعویدار بلوچستان کے عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے آج بلوچستان میں ایک سیاسی سکوت کا سماں ہے۔ آج مذہبی تنظیمیں اور منفی سوچ کی عامل انتہا پسند قوتیں بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پرغالب نظر آتی ہیں جو بلوچستان کے عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا گھناؤنا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہی ہیں، اس کے علاوہ آنے والی مردم شماری میں بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو بلوچستان کا رہائشی سند جاری کرکے بلوچ کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے جو یقیناًبلوچستان اور بلوچ عوام کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان کو انہی تنگ نظر ملاؤں ،مذہبی بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کے حوالے کیا جائے اور بلوچ عوام کے خلاف ہونے والی ساشوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جائے؟ یا بلوچستان کی جمہوری و پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک منظم اتحاد کی شکل میں سامنے آنا چاہیے یا پھر اس کے برعکس بلوچستان کے وہ نوجوان جو بی ایس او کی سیاست کے بعد یا پھر بلوچستان میں سامنے آنے والے شدت پسندانہ رحجانات کے نتیجے میں سیاسی عمل سے دور ہوگئے ہیں ان کو مل کر ایک نئی سیاسی جماعت کی شکل میں سیاست کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ، اس ضمن میں کچھ نوجوان متحرک بھی ہوچکے ہیں جو ان تمام نوجوانوں سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو سیاسی عمل کے دائرے سے باہر نکل کر زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کررہے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ آج کے ان گھمبیر سیاسی حالات میں یہ نوجوان اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ،کیا یہ نوجوان ایک نئی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کے عوام کو سیاسی عمل میں متحرک کرکے بلوچستان کی موجودہ سیاسی جمود کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ؟ بحرحال بلوچستان کے سیاسی جمود کو ختم ہونا چاہیے کیوں کہ بلوچستان کی سرزمین نے ہمیشہ سیاسی و نظریاتی طور پر پختہ ہارڈ ورکرز جنم دئیے ہیں اور بلوچستان کی اس خاصیت کو دوبارہ گروم کرکے بلوچ نوجوانوں کو ایک مثبت ، جمہوری و نظریاتی سیاست کے دائرے میں لاکر ان کو سیاسی طور پر متحرک کرنا وقت و حالات کی اہم ترین ضرورت ہے۔
zk.visionary@hotmail.com