|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2016

نہیں معلوم مجھے کس کی نظرِ بد لگی ہے، سینکڑوں سالوں سے مختلف مصائب کا شکار ہوں، لیکن پیاس کی آس نے میری پوری بدن کو جھلسا دیا ہے، جب سے قدرتی نظام میں بارانِ رحمتوں کا سلسلہ طم گیا ہے تب سے میں پیاسا ہوں۔ 1970 کی دہائی میں میری پیاس کی آگ کو بجھانے کیلئے سنٹسر میں کنویں کھودے گئے اور 9 ماہ کی مختصر مدت میں مجھے سیراب کیا گیا لیکن میرے فرندوں کی تعداد بڑھتی گئی اور کچھ عرصے کے بعد حکومتی عدم توجہی کے سبب یہ نظام کمزور پڑ گیا اور میرے پیاس کی شدت میں ایک دفعہ پھر اضافہ ہوا حکومتِ وقت نے آنکاڑہ جنوبی میں ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا، اور ایک بار پھر میری تشنگی میں کمی آئی اور میں سیراب ہو گیا لیکن میرے دوسرے دْور دراز کے علاقے بدستور پیاس کی گرفت میں رہے، جس کے سبب 1987 میں جیونی کے تین فرزندان غلام نبی، ازگلْ اور معصوم بچی یاسمین پانی مانگتے مانگتے پولیس کی بیرحم گولیوں کا نشانہ بن کر ہمیشہ کیلئے پانی مانگنے سے رہے، حکومت نے مسئلہِ آب کی سنگینی اور مستقل حل کیلئے( بے نظیر بھٹو کی پہلی دور حکومت) آنکاڑہ ڈیم( موجودہ) کی تعمیر کا فیصلہ کیا جو کہ کئی سالوں تک مجھے سیرآب کرتی رہی لیکن جب 2002 میں گوادر پورٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کا حجمِ غفیر آنا شروع ہوا تعمیرات شروع ہوئیں اور اوپر سے بارانِ رحمتوں کا نزول بند ہوا تو ایک بار پھر میرے لبوں کی خشکی اور تشنگی کے سبب میرے چہرے کی رونقیں مْرجھا گئیں، میں چیخا چھلایا اور حکمرانوں سے التجا کرتا رہا کہ آنے والے کل کیلئے تیاری کریں، آنکاڑہ کور ڈیم بہْت چھوٹی ہے جبکہ آپ کے منصوبے بہْت بڑے بڑے ہیں، اللہ نے ہم کو بہْت بڑے سمندر سے نوازاہے اِس کو بروے کار لائیں پلانٹ لگائیں سمندری پانی کو کار آمد بنائیں، اگر یہ مہنگا پڑتا ہے تو ہمارے پاس سووڈ کور ہے، شادی کور ہے اِن پر فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کریں، لیکن کسی نے میری باتوں پر دھیان نہیں دیا اور بالآخر مجھے 2012 کی ذلت آمیز قحط اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، میرے بہْت سارے بچے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور بہْت سوں نے نااْمید ہوکر اپنا کار و بار دوسرے شہروں میں منتقل کیا، میرا خلق خشک ہوگیا زندگی کی اْمیدیں دم توڑ گئیں، لیکن میں کل کی اْمید پر اپنے آپ کو زندہ رکھا، مگر حکومت نے احساس نہیں کیا اور مستقل حل کیلئے کوئی حاطر خواہ انتظام نہیں کیا، مگر قدرت کو مجھ پر ترس آیا اور بارش ہوئی، اور میرے جان میں جان آگئی اور ایک بار پھر یہ اْمیدہو چلی کہ اب کے حکمران ضرور ہوش کے ناخن لیں گے، ڈیسالینشن پلانٹ لگائیں گے،ڈیم تعمیر کرینگے اور میری تشنگی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیگا، لیکن یہ میرا خواب تھا 2015 آیا اور 2016 میں تاحال پیاسا ہوں اور مجھے غم کھائے جارھا ہے کہ کل کیاہوگا، اسطرح دنیا کے ممالک اور سرمایہ کار مجھ پر کیسے بھروسہ کرکے سرمایہ کاری کرینگے، جہاں 46 ارب ڈالر میں ایک لیٹر پانی نہیں ملتا ہو، ہاں ہاں یاد آیا کہ شدتِ پیاس سے 2015 میں میرے ایک فرزند نے اپنے کسی عزیز کے گھر سے دو گیلن پانی چْرایا تھا، ویسے ہم چور نہیں، 2002 سے قبل ہمارے ہاں پولیس تھانے میں سالوں سال کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تھی، پیاس نے ہمیں چوری جیسے سنگین جرم کرنے پر بھی مجبور کیا، لیکن میں پھر بھی نا اْمید نہیں ہوں، انشاء اللہ آنے والا کل میرا ہوگا۔