پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ملکر پاکستان میں زراعت کی ترقی اورفوڈ سیکورٹی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کسانوں کے مسائل کے حل اور ان تک فصلوں کی نئی اقسام اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ پی اے آر سی صوبوں بشمول حکومتیں ، پالیسی ساز ادارے ، ملک بھر میں تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ، یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی ادارے زراعت کی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ زراعت کے شعبہ کی ترقی اور تحقیقی سرگرمیوں کے لیے فنڈز مہیا کرنا ہونگے۔ بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے زرعی ماہرین کو جدید علم اور نئی ٹیکنالوجی کو کسان تک پہنچانا ہو گا۔ حکومت کو بھی کاشتکار کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے پیداواری لاگت کو کم کرنے میں مدد فراہم کرنا ہو گی۔گندم ، چاول، مکئی،گنا، دالیں، کاٹن،ہارٹیکلچر اور لائیو سٹاک کے شعبہ جات میں تحقیق پر PARC کے زرعی ماہرین نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پی اے آر سی نے چکوال کے علاقوں میں 1200 ایکڑ پر سویابین کی کاشت کرنے کے لیے تعاون کے لیے اقدام اُٹھائے اور کاشتکاروں کو سویابین کی کاشت کی فروغ کے لیے تصدیق شدہ بیج مہیا کیے جا رہے ہیں۔PARC نے خطہ پو ٹھوہار کے لیے پوٹھوار مونگ پھلی کی نئی ورائٹی متعارف کروائی ہے جس کی اوسط پیداوار 4000kg فی ہیکڑہے اور کینولا کی پیداوار کے لیے پچھلے سال 10000 ایکٹر رقبہ کے لیے ہائبرڈ بیج فراہم کیے ہیں۔پی اے آر سی کے ) FMI (انسٹیو ٹ کے ماہرین نے شب و روز محنت کر کے مونگ پھلی کی ڈرایئر اور گریڈنگ مشین تیار کی ہے جس سے مونگ پھلی کے کاشتکار اپنی فصل کے نقصان کو 35% کم کر سکتے ہیں۔ پی اے آر سی نے آم کو بیماریوں سے پاک کرنے کے لیے ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ متعارف کرایا جسکی بدولت ملک میں آم کی بر آمد ات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں پاکستانی آم کی مانگ بھی بڑھی ہے اور دور دراز کی منڈیوں تک رسائی بھی ممکن ہو رہی ہے۔
ان مراکز میں گرے فروٹ اور دیگر فصلات پر تحقیقی عمل جاری ہے اور پاکستان میں سبز انقلاب لانے میں انکا اہم حصہ ہے۔ پی اے آر سی کے راول واٹر شیڈ فیلڈ سٹیشن ،سترہ میل اور کراپ ڈیزیز تحقیقی انسٹیٹیوٹ CDRI مری زراعت میں جدت اور ہارٹیکلچر شعبہ کی ترقی اور پیداوار کی بڑھوتی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹشو کلچر ٹیکنالوجی کے لیے بیماریوں سے پاک کیلے کی فصل کو محفوظ بنایا گیا۔ اب بنچی ٹاپ جیسی بیماری کیلے کی فصل پر حملہ نہیں کر سکتی۔ اسکے علاوہ پولٹری کے شعبے میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدام کیے گئے جس سے برڈ انفلوانزابیماری کے لیے ویکسین تیار کی گئی ہے ۔جس سے ملک کو عربوں روپے کا فائدہ ہو گا۔ مزید برآں گنے کی ٹھٹھہ 10 فصل کی قسم کے بعد اب شوگر کین انسٹیٹیوٹ پی اے آر سی ٹھٹھہ نے گنے کی مزید دو اقسام متعارف کرائی ہیں جس سے نہ صرف فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور کم پانی کا استعمال ہو گا۔ گندم کی قوت مدافعت والی نئی اقسام متعارف کرانے سے Ug-99 جیسی بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا گیا ہے۔
ملک میں زراعت کو بہتر بنانے میں پی اے آر سی نے درج ذیل اقدامات کے ساتھ ساتھ فصلات کی نئی نئی اقسام متعارف کرائیں۔
* بلوچستان کے پسماندہ کسانوں کی ترقی کے لیے PARC نے تربیتی کورسز کا انعقاد کیا جس کی بدولت اب تک 500 سے زائد کاشتکاروں کو تربیت فراہم کی گئی ہے اور آئندہ سال مزید 2000 کسانوں کو زراعت میں جدت اور نئی ٹیکنالوجی کے تحت تربیت فراہم کی جائیگی۔
* پاکستان اور چائنہ ٹھنڈے پانی کی مچھلی کی پیداوار کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔ جس سے ملک میں فشریز کے شعبے کو تقویت ملے گی۔ اس بارے میں حال ہی میں چائنہ کے وفد نے PARC ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔
* PARC میں ارجنٹائن کے وفد نے ماہرین سے ملاقات کی اور دو طرفہ زراعت کے شعبے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
* پی اے آر سی نے IFPRI اور USAID کے تعاون سے زراعت کے حوالے سے ایک نئی کتاب شائع کی ہے جس میں بین الاقوامی سائنسدانوں اور ماہرین نے زراعت کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے معلومات درج کی ہیں۔ اور یہ کتاب ملک میں زراعت سے وابستہ لوگوں کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
* PARC نے ملک میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے حال ہی میں NARC-2014 ، NARC-2013 اور بورلاگ ورائٹی متعارف کروائی ہے۔ جس سے گندم کی پیداوار میں اضافہ اور قوت مدافعت والی اقسام سے کاشتکاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی ہو گی۔ PARC ملک میں فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرا رہی ہے اور برازیلین زرعی تحقیقی کامیاب ماڈل سٹوری کی طرز پر پاکستان میں عمل درآمد کر رہی ہے۔
* PARC کے شوگر کین تحقیقی مرکز ٹھٹھہ نے حال ہی میں گنے کی دو مزید ورائٹیز ،ٹھٹھہ 2109 اور ٹھٹھہ 326 کی ورائٹی عام کاشت کے لئے متعارف کرائی ہے ۔ اس گنے کی ورائٹی میں زیادہ قو ت مد افعت اور سندھ کے علاقے میں ایک نئی پیداواری صلاحیت رکھنے والی ورائٹی ہے۔
* پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ( پی اے آر سی ) کی منظور کی جانے والی 9 مکئی ہائبرڈ ورائٹیز سے عام کسان بہتر فصل حاصل کر کے مستفید ہونگے۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ( پی اے آر سی ) نے مکئی کی 9 نئی اقسام کی کاشت کی منظوری دے دی ہے۔ ان میں 6پیلی اور 3 سفید ہائبرڈ اور ایک سفید اوپی مکئی کی قسم اور اسکے علاوہ چارے کے لیے دو ایس ایس ہائبرڈ شامل ہیں جن کی ملکی پیمانے پر کاشت کی منظوری دے دی گئی ہے۔ منظور ہونے والے چار ہائبرڈ ملٹی نیشنل کمپنی اور بقایا چار قومی سیڈ کمپنی کے ہیں۔ایک مکئی کا ہائبرڈ (فخرِ این اے آر سی) ، ایک مکئی کی اوپی ورائٹی ( این اے آر سی۔سفید) اور دو چارے کے لیے ایس ایس ہائبرڈ کی ورائٹریز این اے آر سی کی طرف سے پیش کی گئی ہیں۔
* سٹرس پھلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے کئی قسم کی نئی نرسریاں اور جرم پلازم متعارف کروائے گئے ہیں۔
* کچن گارڈنگ کی بڑھوتی کے لیے 61 کچن گارڈننگ کلب بنائے گئے اور 74 ٹریننگ کورسز کا انعقاد کیا گیاجس کی بدولت 1700 خاندان مستفید ہوئے۔
* تین قسم کے بائیو فرٹیلائزر مصنوعات بائیو زوٹ ۔این، بائیو زوٹ ۔پی، اور بائیو زوٹ میکس متعارف کروائی گئیں۔
* سولر پمپنگ سسٹم کے تحت بارش کے پانی کو زراعت کے لیے استعمال میں لانے کے لیے واٹر شیڈ مینجمنٹ ماڈل تیار کیا گیا ہے۔
* PARC کی زراعت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بعد اب ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ 240.9 بیلین امریکن ڈالر ہے اور کل لیبر فورس کا 45% زراعت کے شعبے
سے منسلک ہے۔
* دیسی ہائبرڈ کی ورائٹی کے فروغ کے لیے کینولا، سورج مکھی اور سفید میز ہائبرڈ متعارف کروایا گیا ہے۔
* چارے کی فصل کے لیے 17 شورگم سوڈان گراس متعارف کروائی گئی ہے۔
* سبزیوں کی بڑھوتی کے لیے الگ الگ چھ قسم کی مرچ جس میں ایک POV اور دو بین الاقوامی ہائبرڈ شامل ہیں متعارف کروائی گئی ہیں۔
* گندم کی بیجائی کے عمل کو بہتر کرنے کے لیے گیارہ قسم کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس پلانٹر لائے گئے ہیں جو کہ WPEPکے گیارہ حلیفوں کو دیے گئے ہیں۔
* PARC نے پودوں اور کوئلے سے اخذ کردہ مادے سے ہیومک ایسڈ تیار کرنے اور اسکے آزمائشی تجربات میں کامیابی حاصل کر لی ہے جس کے نتیجے میں گندم اور پیاز میں 20 فیصد تک اضافہ ممکن ہو گا۔
* PARC کی تیار کردہ شمسی توانائی سے کھارے پانی کو صاف کرنے کی ٹیکنالوجی اب آبی قلت کے شکار علاقوں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور اسے کامیابی سے آب نوشی اور گھریلو باغبانی کے لیے استعمال میں لایا جار ہا ہے۔
* PARC کے زیر اہتمام پر واٹر شیڈ کے مربوط آبپاشی نظام کا ماڈل تیار کیا گیا ہے۔ یہاں شمسی توانائی سے واٹر پمپنگ کے ذریعے آب پاشی کے لیے دستیاب پانی کو موئثر طریقے سے استعمال میں لانے کا عملی مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔
* پی پی آر کی تشخیص کے لیے ایسیز کی تیاری اور میعار بلندی ایک اہم قدم ہے۔
* ایوین ہیلتھ کے شعبہ میں قومی سطح پر نگرانی اور حوالی جاتی تشخیصی سرگرمیوں میں معاونت کی جا رہی ہے۔
* راولپنڈی ، کراچی ، پشاور، کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں 5 تجربہ گاہوں کے نیٹ ورک کا قیام بھی ایک قابلِ تعریف اقدام ہے۔
* این اے آر سی شتر مرغ کی افزائش کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
* PARC سائنسدانوں کی تحقیقی ضروریات پوری کرنے کے لیے 8.339 ارب روپے مالیت کے چھوٹے بڑے 18 منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور اس سال ان منصوبوں کے لیے ایک ارب 358 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
* اس سال این اے آر سی کی ایک سو پچاس ایکڑ اراضی پر سویابین کی فصل کاشت کی گئی ہے جس سے اوسطاً 600 کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے کل نوے ٹن سویابین کا بیج پیدا کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
* گورنمنٹ آف پاکستان نے اٹلی کے مالی و تکنیکی تعاون سے پاکستان میں زیتون کی کاشت کو فروغ دینے کا منصوبہ شروع کیا، جس کا مقصد زیتون کی ملکی ضروریات کو پورا کرنا اور کسان کی مالی حالات کو بہتر بنانا اور غربت میں کمی لانا ہے۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد دیہی، ماحولیاتی ترقی، قدرتی وسائل کا استعمال اور بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بناکر خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، اس کے تحت ملک کی بنجر زمین کو قابلِ استعمال بنایا جائیگا۔
* زیتون کی کاشت کو فروغ دینے اور حوصلہ افزائی کیلئے نرسری بنانے کی بہت ضرورت ہے، اسی وجہ سے 51 کسانوں کو زیتون کی نرسری بنانے کی تربیت پنجاب میں دی گئی، کاشت کے لیے زمین کا انتخاب اور تکنیکی سہولیات کیلئے سائنسدانوں نے کسانوں کے کھیت کا 963 دفعہ دورہ کیا، اس حوالہ سے تقریباً 1050 لوگوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی، زیتون کی کاشت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیح بن چکی ہے۔ اس وجہ سے پنجا ب حکومت نے پھوٹوار اور KPK گورنمنٹ نے سنگ بھٹی کو زیتون ویلی قرار دے دیا ہے۔
* پاکستان میں خوردنی تیل پر اربوں روپے زر مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اسکو مد نظر رکھتے ہوئے PARCپاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اٹالین حکومت کے تعاون سے فاٹا ، گلگت ، بلوچستان اور آزادکشمیر میں بھی زیتون کی کاشت پر نئے پروجیکٹ کا آغاز کررہی ہے۔ زیتون کی کاشت وطن عزیز کی خوشحالی اور ملک کا کروڑوں کا زرمبادلہ بچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ زیتون کی اہمیت اور افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے اسکی توسیع اور بڑھوتی کے لئے ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ PARC جدید ٹیکنالوجی کے طریقوں کو اپنا کر اور GIS اور GPS کا استمال کر کے زیتون کی کاشت کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کریگی۔
* پی اے آر سی نے زرعی تحقیق کے ذریعے زیتون کی دس مختلف اقسام معلوم کی ہیں اور 1300 ایکڑ اراضی کاشت میں لائی ہے اور اب تک زیتون کی کاشت کے سلسلے میں 124 تربیتی کورسز کروا چکے ہیں اور 500 کسانوں کو زیتون کی کاشت ، نرسریوں کی تیاری اور زیتون کے فروٹ اور پراڈکٹ تیار کرنے کی تربیت دے چکے ہیں۔اور 9 ایسی نرسریاں تیار کی ہیں جن سے کسانوں کو
ہزاروں تصدیق شدہ پودے مہیا کیے ہیں جو کسانوں کی ضرورت کو پور ا کرینگے۔
* 5 پراسسنگ ملز پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں لگ چکی ہیں جو کسانوں کو مفت پراسسنگ کی سہولت فراہم کر رہی ہیں اور اس سے سینکڑوں کسان فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
* PARC نے لائیو سٹاک کے شعبے میں پولٹری انڈسٹری میں انفلوانزا جیسی بیماری کو کنٹرول کر کے ایک شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کو اربوں روپے کے نقصان سے بچایاہے۔
جانوروں کی موزی بیماری موکھر سے نجات کے لیے بھی PARC نے ویکسین متعارف کرائی ہے۔
* PARC نے بڑی تعداد میں ملک کے کسانوں کو زرعت کے مختلف شعبہ جات میں فنی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کی تمام یورنیورسٹیوں کے MSC,MPhills اور PhD کے طلباء و طالبات کو سہولتیں مہیا کر رہی ہے ۔جس سے پاکستان کا مستقبل بھی محفوظ ہو گا۔ PARC صوبائی سطح کے تمام اداروں اور یورنیورسٹیوں سے مشاورت کے بعد ورائٹیز اور تجربات کو کسان
کھیت پر لے جاتی ہے جس کے شاندار نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
* PARC نے حال ہی میں ترکی، بنگلہ دیشن، افغانستان اور دبئی کے ساتھ ملکر Bio-remediation گندے پانی کو صاف کر کے زراعت کے استعمال کے لیے کارآمد بنانے کے سلسلے میں
شاندار تجربات کیے ہیں جسکی مثال NARC ریسرچ سٹیشن اور روز اینڈ یاسمین گارڈن اسلام آباد ہیں۔ اب یہ ممالک پاکستان کی بنائی ہوئی Bio-remediation کی ٹیکنالوجی پر اپنے ممالک میں عملدر آمد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو منافع بخش بنانے میں ہی کامیابی حاصل ہو گی۔
* PARC نے وفاقی وزارتِ تحفظ خوراک و تحقیق کی ہدایت پر ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہنگامی بنیادوں پر تیار کیا تا کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اور بیماریوں سے پاک آم کی برآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ برآمد کرنے والے ممالک کی ہدایت ہے کہ آم کو ہاٹ واٹر ٹریٹ کیا جائے۔ اس ٹریٹمنٹ سے آم فروٹ فلائی اور دیگر بیماریوں کے حملے سے بچ جاتا ہے اور برآمد کنندگان بھی اسے قبول کرتے ہیں۔ اس جیسے اور پلانٹس تیار کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے سے پاکستان مزید زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔وفاقی حکومت فارم لیول پر آم کی پیداوار کے علاقوں میں ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کو متعارف کروا رہی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس کام میں مدد کرنے کے لئے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے 6% آم برآمد کیا ہے اور 48 میلین ڈالر کا قیمتی زرِ مبادلہ حاصل کیا ہے۔ پاکستانی آم کے برآمد کنندگان میں مڈل ایسٹ، فار ایسٹ اور یورپی یونین کی منڈیاں شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں USA اور جاپان کی منڈیوں تک رسائی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب ہم جدید طریقوں کو اپنائیں اور اِن ممالک کے برآمدات کے لیول کے مطابق ہم اپنے آم کو پہنچائیں۔انہوں نے کہا کہ زراعت کو منافع بخش بنانے میں ہی کامیابی حاصل ہو گی۔
* PARC نے جانوروں کے لیے ہر موسم میں چارے کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے سیلیج اینڈ بیلنگ پلانٹ متعارف کرایا ہے جس سے لائیوسٹاک کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو بہت فائدہ حاصل ہو گا اور جانوروں کے لیے ہر موسم میں چارہ دستیاب ہو گا۔
* (پی اے آرسی) اور نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ادارے (آکسفام نویب) پاکستان نے ایک یاداشتی معاہدے پر دستخط کیے جسکے مطابق دونوں تنظیمیں جدید ٹیکنالوجی کو کسان تک پہنچانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں گی۔
* پی اے آر سی حال ہی میں کسانوں کے لیے ایک آگاہی مہم کا آغاز کر رہی ہے جس سے عام کسان کو نئی ٹیکنالوجی ، جدید علوم اور کاشتکاری کے نئے طریقوں سے آگاہی ہو سکے۔
* حال ہی میں SARC کراچی ، میں فوڈ کوالٹی اینڈ سیفٹیانسٹیٹیوٹ کا افتتاح کیا گیا ۔
* PARC کے ماہرین کی کوششوں سے شہد کی پیداوار میں نہ صرف مثالی اضافہ ہوا ہے بلکہ 7500 خاندان اس شعبہ سے براہ راست منسلک ہوئے ہیں۔ PARC نے اس شعبہ پر جولائی 1976 سے کام شروع کیا جس وقت ملک میں 4-5 کلو فی ڈبہ شہد کی پیداوار تھی اور آج الحمد للہ PARC کی دن رات کی کاوشوں سے 25kg فی ڈبہ پیداوار ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 10 ہزارمیٹرک ٹن سالانہ شہد حاصل کیا جا رہا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب شہد کو بطور دوائی استعمال کرنے کے لیے تلاش کیا جاتا تھا مگر آج PARC کے سائنسدانوں کی وجہ سے ہر دوکان اور یو ٹیلیٹی سٹورپر شہد پہلے شلف میں ہی دستیاب ہوتا ہے۔
* PARC نے وٹنری کلینک کی سہولت کا آغاز کیا ہے جسکے تحت ابتدائی طور پر ضلع اسلام آباد کے لائیو سٹاک کسانوں کو جانوروں کے علاج کی سہولت ان کے گھر پر دستیاب ہو گی۔