|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2016

آنے والے نئے سال میں بلوچ قومی تحریک کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگا ۔ حالیہ کچھ عرصوں میں بلوچ نیشنلزم نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اگر ہم بلوچ نیشنلزم کے ارتقائی عمل کاباریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں بہت کچھ اب تبدیل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اس میں جہاں وقت اور حالات کی تبدیلی کار فرما ہے وہاں پر بلوچ قوم کی بڑے پیمانے پر قربانیاں اور کمٹ منٹ بھی اس کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں بلوچ نیشنلزم کے حوالے سے کل کے خواب و خیال آج حقیقت کے طورپر کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے بلا شک و شبہہ بحث و مباحثہ ہونا چائیے یعنی خامیوں اور کوتاہیوں پر تنقید ہونا لازمی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرے فقط ابہام پیدا کرنے اور مسائل کو الجھانے کے حوالے سے نکتہ چینی اور تنقید کا راستہ ہرگز درست نہیں ۔ چندہ ماہ قبل بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے مختلف اخبارات میں تنقید برائے تنقید پر ایک سلسلہ شروع ہوا تو صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس دوران دونوں اطراف سے سیاسی قائدین اور پارٹی سربراؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلوچ قومی تحریک میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس میں بلوچ تحریک کے مخالفین کو گھر بیٹھے فائدہ پہنچا نے کی کوشش کی گئی ۔لیکن اگر ہم غور و فکر کے ساتھ اپنی جدوجہد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں بلوچ نیشنلزم کے حوالے سے با قاعدہ تحقیق گفتگو مباحثہ قومی جدوجہد کی کامیابیاں یا ناکامیوں کے حوالے سے کوئی بھی بات ہو، متحد ہو کر ایک چھتری تلے جمع ہونا ہوگا۔ جہاں تک بلوچ نیشنلزم کی بات ہے سب سے زیادہ اہمیت بلوچ سرزمین اور بلوچ عوام کو حاصل ہونی چائیے۔ دوسری بات جہاں تک شخصیات اور ان کے سیاسی گروہوں کا تعلق ہے تو ان کا بنیادی وظیفہ سرزمین کی جدوجہد اور بلوچ عوام ہو اس حوالے سے خواہ کوئی بھی شخصیت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس سے بلوچ عوام اپنے حقوق کے جوابدہی کا حق محفوظ رکھتے ہیں لیکن کچھ معمولی معمولی باتوں پر اپنی ستر سالہ صلاحیتوں اور محنت پر پانی نہیں ڈالنا چائیے اس وقت کے ضیاع کے سلسلہ کو ہمیشہ کے لئے روکنا ہوگا اور باقی دنیا پر نظر ڈالنی ہوگی ۔آج ہمیں بلوچ سیاست کے حوالے سے مختلف عوامل، مسائل اور سطحوں پر بحث مباحثہ اور سیاسی مکالمہ کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ جائز اور درست انداز میں تعمیری سوچ فکر کے ساتھ اپنی خامیوں پر بحث ایک خوش آئند امر ہے اگر یہ سلسلہ دواڑھائی ماہ کے بجائے آج سے تقریباً پچیس برس قبل شروع کیا جاتا تو یقیناً آج کے حالات یکسر مختلف ہوتے ،سیاسی حکمت عملی مختلف ہوتی لیکن ہم نے جو کچھ کرنا تھا وہ نہ کر سکے تاریخی اور سیاسی طورپر بھی وہ مواد نہیں فراہم کیا جا سکا جس کی ضرورت تھی ۔انگریز دانشوروں یا مغربی محققین نے اپنے تہیں بلوچ تحریک ،بلوچ نیشنلزم اور یہاں کے رسوم ،یہاں کی عادات اور قبائل کے حوالے سے بہت سارا کام کیا لیکن ہمیں جو کام کرنا تھا وہ نہ کر سکے ۔بلوچ قوم نے جن سیاسی لیجنڈز کو جنم دیا ان کی سوانح حیات بھی ہمیں نہ ملیں ۔نواب خیر بخش مری، شہید نواب اکبر خان بگٹی، نورا مینگل ، سفر خان، نواب نوروز خان، میر لوگ خان شہید سے لے کر آج کے بلوچ نوجوانوں کی زندگی ان کے شب و روز ان کے تاریخی سیاسی عمل سے متعلق ہمیں کوئی آگاہی نہیں ۔ہم نے نہیں جانتے کہ کس سیاسی شخصیت کا کیا کردار رہا ہے، کس نے کتنی قربانی دی ؟ کس نے قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا ؟ اور آج کے دن کونسی سیاسی جماعتیں بلوچ نیشنلزم کی پرچارک ہیں ۔گوکہ ہم یہ نہیں مانتے کہ بلوچ عوام اپنی اجتمامیت اور حقیقی سیاسی نمائندوں کا شعور و ادراک رکھتے ہیں لیکن بدلتے وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ اخبارات کے ذریعے نکتہ چینیوں کی بجائے کتب لٹریچر کے ذریعے ان سوالات کا جواب سنجیدگی سے دیا جائے جن کا وقت بھی مقتاضی ہو، آپس کے اختلافات کو ذرائع ابلاغ میں اچھالنے کے بجائے بلوچ سیاسی و قومی تاریخ کو بلوچ عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے اس پر آج بھی کام نہ کیا گیا تو آنے والے کل ہمارے لیے بلوچ نیشنلزم کی قوتیں بجا طورپر اپنے آپ کو تاریخ کے دوراہے پر کھڑی محسوس کریں گی۔