|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2016

کوہِ باتل کے دامن میں دیمی زِ ر اور پدی زِر کے حسین سنگم سے ایک جزیرہ نما شہر گوادر سے میری بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ، جن کا تعلق میری روح سے سمٹی ہوئی اپنائیت اور محبت کے ساتھ سیاست کا وہ خارزار ہے کہ جس میں دکھ سکھ کے ساتھیوں کی ایک بڑی فہرست میری زندگی کے ہر پہلو میں پیوست نظر آتی ہے ، یہ ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ سالوں پر محیط یہ ایک ایسے رشتے کا تذکرہ ہے کہ جس کو نظریاتی و فکری ہم آہنگی کے سانچے میں پرو کر دیکھا جائے تو یہ خون کے رشتوں سے بھی زیادہ عظیم دکھائی دیتا ہے۔گوادر کے وہ دوست اور ساتھی کہ جن کے ساتھ ایک نظریاتی کمٹمنٹ کے ساتھ سیاسی جدوجہد کے یادگار دن گزرے ،کافی سالوں سے گوادر کی زمین پر پیر نہ رکھنے اور ان دوستوں سے ملاقات کا سلسلہ نہ ہونے اور ان میں سے کچھ ساتھیوں کادارِ فانی سے کوچ کرنے کے باوجود ان کے نام اور چہرے آج بھی ذہن کے ایک گوشے میں سمائے ہوئے ہیں کہ جن کے ساتھ مل کر سیاست کے سخت ترین دن اور ماہ و سال زندگی کا حصہ بنے ۔ ملا ستار ، ماسٹر منیر شاد(مرحوم)، اللہ بخش شباب ،عابد سہرابی ، شہید رحمن عارف ، غفور ساجد ، غنی آصف ، کہدا خالد (مرحوم) ، احمد ندیم ، قادر بخش قادو(مرحوم)، ستار نواز، حمید حاجی، ناصر رحیم ، سعید فیض (جو اُن دنوں جیوانی میں رہائش پذیر تھے )ماجد سہرابی، اسحق غزل، ڈاکٹر انور جمال، حمید حسین ، یونس حسین ، نور بلوچ، مجید عبداللہ ،مرادسالک ، حسین واڈیلہ( جو اُن دنوں سندھ کے علاقے کلر شاخ میں رہائش پذیر تھے) یہ وہ نام ہیں کہ جو بھولے سے بھی نہیں بھولتے یہ وہ ساتھی ہیں جو مشکل سیاسی حالات میں سنگم میں تھے اور جن کی قربت میں بہت کچھ سیکھنے اور سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔ گوادر (گوات ءِ در) یعنی کہ ہوا کا دروازہ قدرت کا ایک خوبصورت نظارہ لئے اور اپنے دامن میں ایک وسیع سمندر کوسمیٹے ہوئے ماہی گیروں کی خوشیوں اور ان کے دکھوں کو اپنی تہہ میں جگہ دے کر اپنی کھوکھ سے ان کے بچوں کے لئے روزی روٹی کا سامان کرتا ہے، آج گوادر کے غریب ماہی گیروں کے اس گہرے سمندر پر شکاریوں کی نظریں کچھ اس طرح گھڑی ہوئی ہیں کہ جو ڈیپ سی پورٹ اور ترقی کے نام پر گوادر کے ان غریب ماہی گیروں کو ان کی ماں جیسی سمندر سے محروم کرنے کی سازشوں میں مصرف عمل دکھائی دیتے ہیں ، گوادر ڈیپ سی پورٹ کے حوالے سے تحفظات اور خدشات ختم ہی نہیں ہوئے تھے کہ اب اسی سے وابستہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے نام سے ایک اور بڑے پروجیکٹ کا چرچا لب زدوں عام ہے جو ایک طویل شاہراہ ہے کہ جو چائنہ ، سینٹرل ایشیا اور افغانستان کے مختلف شہروں کو ٓاپس میں جوڑتے ہوئے گوادر سے لنک کرتا ہے، اس پروجیکٹ کا افتتاح گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں ہوا ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ وقت و حالات کی ضروریات کے عین مطابق ترقی کے عمل کو آگے کی سمت سفر کرنا چاہیئے لیکن اگر ترقی کے پہیے کو وہاں کے مقامی لوگوں کی گردنوں پر رکھ کر گھمانے یا پھر آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے تو اس ترقی کے دور رس اثرات سے وہاں کے مقامی لوگوں کو کچھ نہیں ملنے والا بلکہ اس سے ان کے اجتماعی مفادات خطرات سے دوچار ہونے کے امکانات ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ترقی کے عمل میں وہاں کے عوام کو شریک کرکے ان کی رائے کی روشنی میں کسی بھی پروجیکٹ کا آغاز کیا جاتا ہے اور اس میں سب سے پہلے وہاں کے عام لوگوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ سی پیک کو گوادر کی ترقی کا راستہ قرار دیا جارہا ہے ، سی پیک کے اعلان کے ساتھ ہی گوادر میں ایک بار پھر زمینوں کی خرید وفروخت کا کاروبار عروج پرپہنچ گیا ہے ،جس کے تناظر میں زمینوں کی خرید وفروخت کے بیوپاریوں کے پھر سے وارے نیارے ہوگئے ہیں جو گوادر کی زمینوں کو بڑے بڑے سرمایہ داروں ، بزنس مینوں اورسیاست دانوں کو بیچ کر گوادر کا سودا کرنے میں بڑی بے باکی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ ایک طرف گوادر پورٹ اور سی پیک کے نام پر ترقی کا واویلہ مچایا جارہا ہے تودوسری طرف زمینی حقائق یہ بتارہے ہیں کہ گوادر کے مقامی لوگ پینے کے پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں، واہ رے پاک چائنہ تیری ترقی کا کمال ۔۔۔۔! ترقی کے نام پر گوادر کے محنت کش عوام کو پیاسا مارنے اور پھر پورٹ روڈ کے نام پر ان کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے کی سازش تو جنرل پرویز مشرف کے دور سے ہی شروع کی گئی تھی لیکن شاید اب اس پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے کہ لوگوں کو پیاس کی اذیت سے دوچار کرکے ان کو نقل مکانی کرنے پرمجبور کیا جائے ، اور تاریخ گواہ ہے کہ اسی گوادر سے سے متصل جیوانی شہر میں پینے کے پانی کی بوندھ کو ترستے غلام نبی ، ازگل اور معصوم یاسمین کو ریاستی اہلکاروں نے گولیوں سے بھون کر یزیدیت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی تھی جو بلوچستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ میری جدوجہد اور دکھ سکھ کے ساتھیوں کی زمین میرے غریب ماہی گیروں کا سمندر ، دنیاکے لوگو گواہ رہنا کہ یہ سمندر ان غریب ماہی گیروں کی ماں ہے ، گواہ رہناسیاست ، جمہوریت اور مذہب کے نام پرعوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے والے سیاست کے کھلاڑیو! اقتدار کے ایوان آج ہیں تو کل نہیں ، کہاں گئے تاریخ کے سینے پر نقش وہ ظالم و جابر انسان جو پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں دبا کر رکھنا چاہتے تھے، سب کے سب زوال پذیر ہوکر دنیا سے مٹ گئے لیکن ان کے مٹنے کے بعددنیا کا کاروبار ایک دن کے لئے بھی نہ رکا، بلکہ آگے کی سمت رواں دواں رہا ۔ اقتدار کے مزے لینے والے حکمرانو! ذراسوچو کہ گوادر کے ماہی گیروں اور محنت کش عوام کو پانی کی ایک ایک بوندسے محروم کرکے اور ان کو پیاس کی اذیت میں مبتلا رکھ کے کیا تم ترقی کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہو؟یقیناًنہیں بلکہ تم تو اس تاریخ کو دہرانے کی کوشش کررہے ہوکہ جہاں کربلا کے میدان میں ظالموں نے حق کے پیامبروں کو پیاسا رکھ کر ان پر جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ حق و باطل کی اس جنگ میں باطل کا نام ہمیشہ کے لئے مٹ گیا جبکہ کربلا کے پیاسے شہیدوں کو لوگ آج بھی بڑے عقیدت و احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ گوادر کے باصلاحیت نوجوانو ں، بزرگوں ، ماؤں اور بہنوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کران کی زمینوں اور ان کے سمندر سے اپنے لئے محل تعمیر کرنے کے خواب دیکھنے والے بزنس مینوں اور سیاست کو شطرنج کا گیم سمجھ کر اس سے کھیلنے والے سیاستدانو! یاد رہے کہ پورے بلوچستان کی طرح گوادر کی زمین اور اس کا سمندربلوچوں کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اپنے وقتی مفاد اور عیش و عشرت کے لئے لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے ان کی زمینیں ہتھیانے اور پھر سونے جیسی ان زمینوں کو اغیارکے ہاتھوں فروخت کرنے سے تم کبھی بھی سکون نہیں پاسکو گے اور نہ ہی گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے پروجیکٹس کو گوادرکے غریب ماہی گیروں اور محنت کش عوام کی شمولیت کے بغیر کامیابی کی منزلوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتے ہو ۔ اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ گوادر کے محنت کش عوام کو پینے کے پانی اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرانے کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ گوادر کے محنت کش عوام کو ترقی کے اس عمل میں شامل کرکے ہی تم وقت و حالات کی ضروریات کے مطابق ترقی کے اس عمل کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوسکتے ہو۔۔۔!