حسبِ معمول درس وتدریس کے عمل سے فارغ ہونے کے بعد جب تھکا ہارا رات کو گھر پہنچا توایک سفید رنگ کا لفافہ اپنے اندر ایک کارڈ کو سمیٹے میرے کمپیوٹر ٹیبل کی زینت بنا ہوا تھا ، فورًااس کارڈ کی طرف متوجہ ہوا اور لفافہ کھولا تواس کارڈ کے ٹائٹل پر بڑے سے حروف میں ’’کتاب کلچر ‘ ‘لکھا ہوا پایا، اس کارڈ کو پڑھنے کے بعدمعلوم ہوا کہ25دسمبر کی شام شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کے آڈیٹوریم میں ایک اردو مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں شرکت کے لئے مجھے مدعو کیا گیا ہے ، لیکن تشنگی اس بات کی رہی کہ اس کارڈ میں کسی کا نام درج نہیں تھا، تا کہ معلوم ہوتاکہ اس مشاعرے کے آگنائزرز کون ہیں اور نہ ہی کوئی فون نمبر درج کیا گیا تھا تا کہ فون کرکے معلوم کیا جاتاکہ کون لوگ ہیں جو اس کتاب کلچر کوفروغ دینے کی ایک مثبت کوشش کررہے ہیں ۔
بحرحال ہم ٹہرے اس طرح کے پروگراموں کے دلدادہ تو 25دسمبر کی شام اپنے دو ساتھیو ں کے ہمراہ اس مشاعرے میں شرکت کی غرض سے جب بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کے مین گیٹ پر پہنچا تو مہمانوں کو ویلکم کرنے کے لیے ایک بینر گیٹ پر آویزاں ملا جس میں درج تھا کہ ہم آنے والے مہمانوں کو ’’پریم کی بستی ‘‘لیاری میں خوش آمدید کہتے ہیں ، اس پر نظر پڑتے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ اس مشاعرے میں شاعروں اور مہمانوں کی شکل میں لیاری سے باہر کے لوگ بھی مدعو کئے گئے ہیں۔ گیٹ کو پار کرکے ہم جیسے ہی یونیورسٹی کی عمارت میں داخل ہوئے تو لیاری کے چند جانے پہچانے طالبعلموں اور نوجوانوں کو اپنے استقبال کے لئے موجود پایا جو ہمیں دیکھتے ہی ہماری جانب متوجہ ہوئے اور ہمیں خوش آمدیدکہا ، پھر ہم نے آڈیٹوریم کے سامنے بلوچی ادب سے وابستہ چند اہم شخصیات کو بھی موجود پایا جنہیں دیکھ کر اس مشاعرے کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اس دوران بلوچی زبان کے نامور نوجوان شاعر اسحق خاموش سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ ثانی سعید نامی ایک نوجوان شاعر اس شعری مجلس کے روح رواں ہیں اور اس کی آرگنائزنگ ٹیم میں رحیم غلام ، آصف حسن آزاداور حاصل مراد کے نام شامل ہیں۔
مین گیٹ پرآویزاں ویلکم بینر کو دیکھ کر میں جس سوچ میں پڑ گیا تھا اس کوحقیقت کا روپ اس وقت ملا جب میں نے دیکھا کہ شعراء کی اکثریت کا تعلق لیاری سے باہر کراچی کے مختلف علاقوں سے تھا ۔لیکن اس خوبصورت مشاعرے کو سننے کے لئے سامعین بہت کم تعداد میں موجود تھے اور سامعین میں خواتین کی نمائندگی صرف ایک ہی خاتون کررہی تھیں جو بذات خود شعراء کی فہرست میں شامل تھیں ۔ اب نہیں معلوم کہ اس مشاعرے میں لوگ کیوں ایک اچھی تعداد میں جمع نہ ہوسکے ، اگر پروگرام کے آرگنائزرز نے خود لوگوں کی محدود تعداد کو مدعو کیا تھا تو پھر اتنے بڑے ہال میں پروگرام رکھنے کی کوئی ضروت نہیں تھی جس میں زیادہ تر کرسیاں خالی ہونے سے پروگرام کی رونق میں کچھ پھیکا پن شامل ہوگیا تھا ۔ لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ قلیل تعداد میں موجود سامعین نے اس پروگرام کو پر جوش بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے شعراء کو کھلے دل سے داد دی اور پروگرام کے جوش و خروش میں کمی نہ ہونے دی۔
مشاعرے کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا گیا کہ نظامت کے فرائض انجام دینے والے نوجوان شاعر ہدایت ساحر نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے صدرِ تقریب اجمل سراج اور مہمان خصوصی خالد معین کو اسٹیج پر مدعو کرنے کے بعد اعزازی مہمانان وحید نور اور کامی سراج کو اسٹیج پر مدعو کیا ،اس کے بعد اس مشاعرے میں حصہ لینے والے شعراء کو باری باری اسٹیج پر بلانے کے لئے ان کے نام پکارے گئے جن میں وسیم ہاشمی ،یاور رضوی، علی کونین ، اسامہ امیر ، عبدالرحمن مومن ،ثانی سید، اسحق خاموش، ظہیر ظرف،میر ساغر، ضیا ء بلوچ، سید اسداللہ قادری، سید علی بابا ، ناصرمصطفی، نجی یاسین ، حنیف ناشاد، آصف علی آصف اور واحد خاتون شاعرہ قرآت مرزا کے نام شامل تھے۔
پریم کی بستی اور لیاری ایک حسین تصور اور الفاظ کا بہت ہی خوبصورت امتزاج جسے ویلکم بینر پر لکھا دیکھ کر اور پڑھ کر دل کو خوشی محسوس ہوئی اس خوبصورت سے پریم کی بستی لیاری اور پھر اس کو کتاب کلچر کے خوبصورت رنگ میں رنگ دینا یقیناًایک قابل ستائش عمل ہے، کیوں کہ لیاری میں کتاب کلچر کو فروغ دینے کی اس وقت جتنی ضرورت ہے اس سے قبل شاید ہی اس کی اتنی ضرورت رہی ہوگی ۔ لیاری کا ماضی کتاب ، اسٹڈی سرکلز، سیاسی بحث و مباحثوں، مشاعروں ، میوزیکل پروگرامزپر متعین نظر آتا ہے، لیاری کے لینن گراڈ سے لے کر ملا فاضل لائبریری تک کا سفر علم سے محبت اور کتاب دوستی کا ایک واضح اور تاریخی ثبوت فراہم کرتا ہے ۔استادِ محترم ن م دانش کی دل کو چھولینے والی شاعری ہو یا رحیم بخش آزاد کی خوبصورت تحریریں، لعل بخش رند کی سیاسی تربیت ہو یا یوسف نسکندی کے علمی و ادبی کام، علی محمد شاہین کے گھر میں موجود چھوٹا سا تعلیمی ادارہ ہو یا نادر شاہ عادل ،صدیق بلوچ اورلطیف بلوچ کا صحافتی کردار کہ جس نے لیاری کی اپنی ایک پہچان بنادی تھی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کراچی میں کتاب کلچر کو فروغ دینے کا آغاز ہی لیاری سے ہوا تو غلط نہ ہوگا۔
کتاب کلچر کے نام سے مشاعرے کا میلہ سجانے والے نوجوان یقیناًقابل تعریف ہیں کیوں کہ آج لیاری کو اس طرح کی مثبت اور علمی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے ، جس طرح لطیف بلوچ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب کا ٹائٹل’’ لیاری کا مقدمہ ‘‘ہے تو آج لیاری کے اس مقدمے کو عملی میدان میں لڑنے کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین طریقہ اس طرح کی مثبت علمی سرگرمیاں ہیں کہ جن کے ذریعے لیاری کی اصل روح کو زندہ رکھنے اور پھر اس مثبت پہلو کو دنیا کے سامنے اجاگر کرکے شہر کے پڑھے لکھے لوگوں پریہ واضح کردینا ہے کہ لیاری واقعی میں پریم کی بستی ہے کہ جس میں نہ توذات پات کے حوالے سے کوئی جھگڑا ہے، نہ زبان اور نسل کی بنیاد پر کوئی رنجش وجود رکھتی ہے اور نہ ہی کسی اور حوالے سے شہر کے دیگر حصوں سے آنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک نو گو ایریا ہے ۔بلکہ یہ پڑھے لکھے دانشوروں ، امن کی بات کرنے والے شاعروں ، قلمکاروں ، سیاسی طالبعلموں ،موسیقاروں ، اسپورٹس کے شیدائیوں اور فنکاروں کی ایک خوبصورت سی بستی ہے۔ ہاںیہ پریم کی بستی ہے۔۔۔۔ !