قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان آج بھی احساس محرومی کی دھوپ میں پسماندگی کی تپش لیئے ترقی کے ڈگر پر ہچکولے کھا رہاہے۔۔۔۔ جہاں صحت و روزگار جیسی بنیادی سہولیات اب بھی عوام کی دسترس سے دور ہیں۔۔۔۔ دیگر ان گنت مسائل کی طرح صوبے کا تعلیمی نظام بھی گزشتہ کئی ادوار سے بہتر ہونے کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔۔۔۔۔حالیہ برسوں کے دوران حکومت بلوچستان نے تعلیمی ایمرجنسی اور ہر بچہ سکول میں جیسی مہم چلائیں۔۔۔۔اور بعدازاں تعلیمی میدان میں کامیابیوں کے دعوے بھی کیئے۔۔۔۔موجودہ حکومت نے بھی تعلیمی ایمرجنسی کے بینر تلے محکمہ تعلیم میں بہتری لانے کے عزم کا اظہار کیا۔اور سال دوہزار سولہ۔ سترہ کے دوران محکمہ تعلیم کے لئے 42 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی۔۔نئے سکولوں کی تعمیر،متعدد کی اپ گریڈیشن اور 14 ہزار طالب علموں کو سکالر شپس دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔۔۔۔۔مگر گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی حکومت کے دعوے صرف زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے۔۔۔۔۔ اعداو شمار پر نظر دوڑائی جائے تو صوبے کے 13 ہزار سے زائد پرائمری مڈل اور ہائی سکولوں میں گیارہ لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ اٹھارہ لاکھ بچے مختلف وجوہات کی بنا ء پر اب بھی سکولوں سے باہر ہیں۔۔۔۔۔ذرائع محکمہ تعلیم کیمطابق اس وقت صوبے کی 8 فی صد سرکاری اسکولوں کی عمارتیں ہی موجود نہیں،، جبکہ 80فی صد پرائمری ،40فی صد مڈل اور ہائی اسکولوں میں بچوں کے لیے بیت الخلاء موجود نہیں۔اٹھاون فیصد سکولوں میں صرف ایک استاد جبکہ پانچ ہزار اسکول ایک کمرہ پر مشتمل ہیں ،،مگر انتظامیہ اب بھی صورتحال پر چین کی بانسری بجا رہی ہے۔۔۔۔۔
کئی ادوار سے بلوچستان میں دیگر محکموں کی طرح محکمہ تعلیم بھی بدعنوانی اور سفارش کی بھینٹ چڑھ رہاہے جسکی بڑی مثال بوگس اساتذہ ہیں۔۔۔۔محکمہ تعلیم کے افسران بھی بوگس اساتذہ کی موجودگی کا اعتراف بارہا کرچکے ہیں۔۔۔معاملے کے حل کیلئے حکومت کی جانب سے اساتذہ کی تصدیق کا عمل شروع ہوا تو ساٹھ ہزار میں سے چالیس ہزار اساتذہ کی تصدیق ہی ممکن ہوسکی۔۔۔۔۔ جبکہ اٹھارہ ہزار سے زائد اساتذہ صرف سرکاری کاغذات میں موجود تھے۔۔۔۔۔ان اٹھارہ ہزار بوگس اساتذہ کے خلاف اب تک کوئی کاروائی شروع کیوں نہ ہوسکی یہ کوئی نہیں جانتا یا جاننا ہی نہیں چاہتا۔۔۔۔
گھوسٹ اساتذہ کے بعدگھوسٹ سکولوں اورگھوسٹ طالب علموں کے انکشاف نے رہی سہی کسر پوری کردی۔۔۔ وزیرتعلیم بلوچستان کے مطابق اب تک صوبے میں نو سو بوگس سکولوں اور تین لاکھ بوگس طالب علموں کا پتہ لگایا گیا ہے۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہونے والے تعلیمی بحران کے باوجود حکمران صوبے میں تعلیمی اصلاحات اور بہتری کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔
اس امر میں کوئی دوہرائے نہیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔۔آج کی دنیا میں صرف تعلیم یافتہ اقوام کو ہی ترقی یافتہ گردانہ جاتاہے۔۔۔۔مگر بدقسمتی سے ہم آج بھی تعلیم کی اصل قدروقیمت سے لاعلم ہیں یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کی شرح خواندگی تر تالیس فیصد ہے۔۔۔۔۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں رواں برسوں کے دوران شرح خواندگی میں اضافہ کی بجائے کمی آئی ہے۔۔۔۔۔جہاں 5 سے 16 سال کی عمر کی پینسٹھ فیصد بچیوں سمیت دو تہائی بچے سکولوں سے باہر ہوں وہاں خواندگی کی اس قدر کم شرح پر تعجب کیسا۔