بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور تناؤ میں حالیہ اضافہ کے بعد بھی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کے ذریعے ہی باہمی تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے، یہ حکومت اور اسٹبلیشمنٹ کی اولین خواہش ہے کہ بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا آغاز کیا جائے تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے، امن ہی دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت، بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور رابطوں میں بہتری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دونوں ملکوں کو اپنی تمام تر توجہ اپنے عوام کے سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کی طرف مبذول کردینی چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ تخریبی محاذ آرائی پر اپنے وسائل ضائع نہیں کرنے چاہیں۔ مواصلاتی رابطوں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی خطے میں خوشحالی کا ایک نیادور لائے گی،
پاکستان یقین رکھتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پر عملدرآمد سے نہ صرف پاکستان میں اقتصادی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا بلکہ مشرق اور مغرب میں اس کے پڑوسیوں پر بھی اس کے مثبت اثرات ہونگے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعمیری رابطے کو مسترد کر دیا ہے اور پاکستان کی ترقی کے خلاف سرگرم ہے، بھارت خطے میں سی پیک کے ذریعہ ہونے والی بڑی تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اسے روکنے کے لیے تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ بھارت کی جانب سے تمام دباؤ اور مداخلت کے باوجود پاکستان اور چین بلوچستان کو جنوبی ایشیاء کا اقتصادی اور تجارتی مرکز بنانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں، جس سے چین پاکستان اقتصادی ترقی کے نئے دور میں داخل ہونگے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ملک دشمن قوتوں کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کی زد میں ہے اور اس حوالے سے یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارتی سیکورٹی ایڈوائزر اجیب ڈوول کی بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے کے حوالے سے جاری حکمت عملی روبہ عمل ہے۔ جا کا ایک اہم مقصد سی پیک منصوبے پر عملدرآمد کو رکوانا ہے۔چند ماہ قبل حکومت بلوچستان نے بلوچستان میں کام کرنے والے جاسوسی کے ایک نیٹ ورک کو پکڑا جس کی قیادت بھارتی بحریہ کے باقاعدہ ملازم اور بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کا ایک افسرکلبھوشن یادیو کر رہا تھا، خیال ہے کہ اب بھی صوبے میں جاسوسی کے مزید نیٹ ورکس موجود ہیں۔ بھارت بلوچستان میں ان علیحدگی پسندوں کی حمایت اور اعانت بھی کر رہا ہے جو ہزاروں کی تعدا دمیں معصوم افراد کے قتل کا اعتراف کر چکے ہیں جن میں مقامی بلوچ ، پشتون ، ہزارہ ، پنجابی اور اردو بولنے والے شامل ہیں، بھارتی وزیراعظم نے اپنی 15اگست کی تقریر میں کسی لاگ لپٹ کے بغیر پاکستان اور بلوچستان کے خلاف جو زبر افشانی کی اس سے دنیا واقف ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں بلوچستان کو نشانہ بنا رہی ہیں، لیکن سول ہسپتال کوئٹہ میں خون آشام حملے کی تحقیقات کے بعد پتہ چلا کو اس کے پیچھے بھی بھارت کار فرما ہے۔ کوئٹہ سول ہسپتال پر حملہ آئی ایس آئی ایس اور تحریک طالبان پاکستان کی مشترکہ کاروائی تھی، اس حملہ کا ایک بڑا مقصد وکیل برادری کو دہشت گردوں کے خلاف مقدمات لینے سے روکنا بھی تھا، ٹی ٹی پی اور آئی آیس آئی ایس دونوں ہی افغانستان میں موجود ہیں اور اس وقت بھارتی جاسوسی ادارے افغان حکومت کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف عناصر کے ساتھ ملکر پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بھارت پوری طرح ملوث ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ سی پیک کئی اعتبار سے گیم چینجر ثابت ہوگا، یہ پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کو نئے مرحلے پر پہنچا دے گا، جس سے خود بھارت کے عوام متاثر ہونگے، آزاد جموں کشمیر فری زون کے قیام سے بھارتی مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں کے عوام پر اثرات مرتب ہونگے، افغان سرحد کے ساتھ موجود اقتصادی زون افغانستان کو سی پیک میں شمولیت پر مجبور کر دیں گے اسی طرح ایران کی سرحد کے ساتھ ہونے والی ترقیاتی سرگرمیاں ایران کو سی پیک میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کرینگی۔ دوسری جانب بھارت اپنے قریبی ہمسایہ ملکوں، بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں رابطے اور بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی کا حامی نہیں، بھارت نے ان ملکوں میں کبھی روڈ اور ریل نیٹ ورک تعمیر کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی، متعدد دو طرفہ معاہدوں کے باوجود اس نے سری لنکا کے ساتھ بحری راستے کو آج تک ترقی نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ بھارت ایک متحرک اور فعال اقتصادی راہداری کے وجود میں آنے سے خوفزدہ ہے، پاکستان اقتصادی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو جائیگا اور یہی بات بھارت کے لیے قابل قبول نہیں، ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر بھی مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایران کو چین کا تعاون درکار ہے اور وہ سی پیک میں شمولیت کا خواہش مند ہے۔ چین دنیا کے فیکٹری ہاؤس سے ایک ترقی یافتہ، اعلیٰ اور جدید عالمی اقتصادی قوت کے مرحلے پر ترقی کررہا ہے، پاکستان اس حیثیت سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ، اسلام آباد چاہتا ہے کہ موجودہ چینی صنعتی ڈھانچہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں قائم ہونے والے صنعتی زونوں میں منتقل کر دیا جائے، اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت زرعی سے صنعتی شکل میں تبدیل ہو جائے گی، ایک تخمینہ کے مطابق ہر صنعتی زون تقریباً 6 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کریگا۔ چین تاریخی تبدیلی سے گزر رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے 1980 کی دہائی میں جاپان نے اپنی نچلی پیداواری لائن کو جنوبی کوریا، ملائیشیا اور دیگر ملکوں کو منتقل کر دیا تھا جہاں سستی محنت دستیاب تھی۔ چین کے مقابلے میں پاکستان میں صنعت چھ گنا سستی ہے اور اس کی نوجوان نسل اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکنامک زونز ہر طور سے گیم چینجر ثابت ہونگے۔ سی پیک، جنوبی اور مغربی ایشیاء کے اقتصادی مرکز کے طور پر پاکستان کے ابھار کی ضمانت ہے، کوئی پرواہ نہیں بھارت کتنی ہی مخالفت کرے، وزیراعظم محمد نواز شریف اور حکومت بلوچستان پر عزم ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کے ساتھ ملکر سی پیک اپنی نئی نسل کو ضرور دینگے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی مشکلات سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔
(لکھاری بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہیں)