مو ضوع پر جانے سے قبل ایک مختصر روداد بیان کرنے میں کیا قباحت ہے ۔خاکسار کی گزشتہ حقیرانہ تحریر میں اپنی کوتابینی اور کم علمی کے اظہار پر احباب کی پرُ خلوص اپنائیت نے طالب علم کی ناتواں انگلیوں میں نہ صرف جان ڈال دی بلکہ ذہن میں مختلف النوع خیالا ت کے خزاں رسیداں فصلوں پر برسات کی پہلی بارش کی طرح خوشگوار تازگی بھی پیدا کی جس پر تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہو ں۔ بلاشبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ بنا کسی مبا لغہ آرائی کے ایسے قدآور اصحاب علم موجود ہیں جو اگر اپنے قلم کو حرکت میں لائیں تو یقیناََ ان کے مقابل اس طالب علم کی ہر تحریر جہالت کے کالے دیواروں پرآویزاں دکھائی دے گی توکیوں نہ انہی اصحابِ علم سے رہنمائی کی توقع کے ساتھ اپنی کوتا بینی کا مزید اظہار کیا جائے ۔
ریمنڈاور سلیم دو ایسے استعارے ہیں جو دو مختلف قوموں اور دو مختلف نقطہِ نظر سے تعلق رکھتے ہیں یہاں نقطہِ نظر سے مراد مذہبی نہیں بلکہ دنیاوی اور سماجی ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دونوں کے قدرتی خدوخال اور نفسیاتی جوڑ ایک جیسے ہیں دونوں معاملات کو مختلف نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں مختلف انداز میں جانچتے ہیں اورمختلف کھسو ٹیوں پہ پرکھتے ہیں یقیناََعلم کا حسن بھی یہی ہے لیکن ستم ملاحظہ کیجیے کہ دونوں کی ’’سٹیٹس‘‘ میں زمین و آسمان کا تفاوت (فرق)ہے مثلاََریمنڈ ایک تعلیمی نظام کے تحت یک رخی سے پڑھتا ہے جبکہ سلیم آٹھ مختلف نظام تعلیم میں تقسیم ہو کر پڑھتا ہے اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سلیم مختلف دھاروں میں تقسیم ہونے کے بجائے اس آٹھ رنگی تنوع سے فائدہ اٹھاتا جو کہ بد قسمتی سے ایسا ہو نا ممکنات میں شامل ہے اور جب ریمنڈ تعلیمی اداروں میں جاتا ہے تو وہاں اسکو علم کی بنیاد یعنی سوال کرنا ،منطقی انداز میں سوچنا اور پرکھنا سکھایا جاتا ہے جبکہ سلیم کا تعلیمی ادارے میں جانے کے باوجود ان تمام ذرائع علم اور سلیم کے بیچ بڑی خلیج حائل ہوتی ہے جس میں سوچنا ، منطقی انداز میں پرکھنا،اور سوال و جواب کا تعلق کمزور ہوتا ہے۔ ریمنڈ کو ہر قسم کا سوال کرنے کے لیے سازگار ماحول بنا یا جاتا ہے جبکہ سلیم ایسے ماحول سے یکسر محروم ہے ۔ریمنڈ کوبے محل سوال کے نتیجے میں نہ صرف تحمل سے جواب ملتا ہے بلکہ مزید سوالات کیلئیے حوصلہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ سلیم کے منطقی سوالات کوبھی بڑوں سے بے ادبی کی پاداش میں ایک سانس میں مسترد کیا جاتا ہے تودوسری سانس میںآئندہ ایسی گستاخی نہ کرنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے جس سے ایک طرف ریمنڈ کی ذہنی نشوونما کی آبیاری سوال کرنے کی آزادانہ فضا کی سر سبز باغات میں ہوتی ہے تو دوسری طرف سلیم کی نفسیاتی زرخیزی صحرا کی تپتی دھوپ میں خشک سالی کا شکار ہوتی ہے ریمنڈ جن درسگاہوں میں پڑھتا ہے ان کا شمار دنیا کے صفِ اول کی درسگاہوں میں ہوتا ہے جبکہ سلیم کی بیشتر درسگاہیں آسیب زدہ عمارتوں کا منظر پیش کرتی ہیں یوںیہ سلسلہ ایک مرحلے سے نکل کر دوسرے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے یہاں تک کے ریمنڈ اور سلیم بھی درسگاہوں سے نکل کر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں ریمنڈ اور سلیم کو رزق کی تلاش میں عملی زندگی کے منہ زور لہروں کا سامنا کرنا ہوتا ہے جسں میں ریمنڈ ایک ماہرتیراک کی طرح تیرتے ہوئے اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرتاہے جبکہ بد قسمت سلیم ایک بے جان لکڑی کی طرح لہروں کے سپرد ہوجاتاہے کیونکہ ریمنڈکو تعلیمی اداروں نے نفسیاتی طور پر ’’جری‘‘ بنایاتھا اور سلیم کے تعلیمی ادارے تلخ زمینی حقائق سے نابلدتھے کیونکہ دماغ بھی ایک پیراشوٹ کی طرح ہوتاہے یہ صرف اس وقت کام کرتاہے جب کھل جاتاہے لیکن سلیم کے چاک زدہ پیراشوٹ میں پیوندکاری بھی کمزور دھاگے سے کی جاتی ہے مثلاََ ریمنڈ اپنے تعلیمی پس منظر اور تخلیقی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں قسمت آزماتاہے جبکہ سلیم ڈگری پہ ڈگری رکھنے کے باوجود اسکا تعلیمی کیئریئر اس معذور ہاتھ کی طرح ہوتاہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا ہے یقیناََ استثنائی مثالیں ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن وہ نہ ہونے کا برابرہیں ریمنڈ تحقیق کرکے اپنی خامیوں اور خوبیوں کو منفی جمع کرکے اپنی سوچ کو آج کے جدید دور سے ہم آہنگ کرتا ہے جبکہ سلیم کی سوچ آج کی دنیا کی زمینی حقائق کے سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہے ریمنڈ اپنے تلخ و تاریک ماضی کو بھول کے آج اور کل کی پیش بینی میں مصروف ہے جبکہ سلیم اپنے درخشاں ماضی کا اسیر ہے آج کے تاریک دور پر آنکھیں بند کر رکھی ہے اور مستقبل سے بالکل لا تعلق ہے ریمنڈجہاں رہتا ہے وہاں سوال و جواب کی فراوانی ہے جبکہ سلیم کے بیشتر ممالک میں سوچ پہ قدغن لگی ہے ۔ریمنڈ کے روزگار کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت نت نئی صنعتیں موجود ہیں جہاں ریمنڈ اپنے ہنر کے پتھر کو تراشتا ہے اور دوسری طرف ان نعمتوں سے محروم ہونے کی بنا پر سلیم کی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہوجاتی ہیں اور سب سے بڑھ کرریمنڈاپنی کمزوریاں اور مسائل خود حل کرنے پر یقین رکھتا ہے جبکہ سلیم مسائل کے حل کیلئیے کسی مسیحا کے انتظار میں رہتا ہے یوں یہ سلسلہ ریمنڈاور سلیم کی زندگی کے دوسرے مرحلے سے نکل کر تیسرے مر حلے میں داخل ہوجاتا ہے جہاں ریمنڈ ’’ٹرینڈ‘‘ دماغ اور ہنر کاری سے آشنا ہاتھوں کو استعمال میں لاتا ہے جبکہ سلیم خالی ہاتھوں اور جدید دنیا کے تقا ضوں کو سمجھنے سے عاری دماغ کیساتھ ہوتاہے ۔ تیسرا مرحلہ سلیم کے لیے بڑا سفاک ثابت ہوتاہے مثلاََ ریمنڈ انسانی زندگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایجادات کرتاہے جبکہ سلیم قیمت دے کر استعمال کرتاہے ریمنڈ’’تھنک ٹینک ‘‘ نامی تحقیقی اداروں میں پوری دنیا کو مختلف پہلوؤں سے باریک بینی سے سمجھنے کی سعی کرتاہے جبکہ سلیم کااپنی دانست کو وسعت دینے کے لیے ریمنڈ کی تحقیقاتی رپورٹوں پر تکیہ ہے ریمنڈ آج کے ماڈرن فزکس،کیمسٹری، اور بیالوجی کے علمی میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑرہاہے جبکہ سلیم ان کامیابیوں میں شرکت دار ہونے کی بجائے ان مضامین کی بنیادیں (اس پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ صدیوں پرانے کیمسٹری میں اور آج کے کیمسٹری میں زمین وآسمان کا فرق ہے)اپنی تاریخ میں تلاش کرنے میں مصروف ہے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ’’خود فریبی کے سمندر کا کوئی ساحل نہیں ہوتا ‘‘ ریمنڈ انسانی تاریخ کی حیران کن دریافت ’’شیل سٹون‘‘ سے ’’شیل گیس‘‘اور ’’شیل آئل‘‘نکالنے پر تلا ہوا ہے جبکہ سلیم کے دیس میں کم علمی کے سبب ان ’’پتھروں‘‘ کی کوئی اوقات نہیں ہے اور سلیم ان ’’خرافات‘‘ میں پڑنا بھی نہیں چاہتا ہے۔ریمنڈ ناسا کی لیبارٹریوں ’’مریخ ‘‘ پرانسانی زندگی کے آثار تلاش کر رہاہے جبکہ سلیم اپنی ہی زندگی بچانے کو غنیمت سمجھتا ہے۔ ریمنڈ ’’ہالی وڈ‘‘ کے پر کشش پلیٹ فارم سے بڑی عرق ریزی سے سالانہ سینکڑوں فلمیں بنانے کی مد میں کروڑوں ڈالر ٹیکس اپنی ریاست کو ادا کرتا ہے جبکہ سلیم سینما میں بیٹھ کر ریمنڈ کی محنت کو داد دینے پر مجبور ہوجاتاہے اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اٹھانوے فیصد سلیم ٹیکس بچانے میں ید طولٰی رکھتا ہے۔ ریمنڈ میں نوم چومسکی،اور سٹیفن ہاکنگ جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جبکہ سلیم کا دامن ایسے ناموں سے خالی ہے آ ج سر کے درد سے لیکر شوگر،بلڈپریشر، اور کینسر جیسے موذی امراض کے تمام علاج ریمنڈ کے محنتوں کا شاخسانہ ہے غرض سلیم بیمار ہوتاہے اورریمنڈ علاج کرتاہے ریمنڈ خلا ء کی وسعتوں میں اُڑان بھر رہا ہے اور سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیوں کی اقسام پر تحقیق کر رہاہے اور کرہ ارض پر تمام چرند و پرند اور حتیٰ کہ حشرات الارض کی مختلف قسم کی آوازوں کو ریکارڈ کرکے اپنی لائبریریوں میں محفوظ کرنے میں مگن ہے جبکہ سلیم ان دقیق کاموں سے سالوں کی مسافت پر کھڑا ہے۔ ریمنڈشرح خواندگی میں سب سے آگے ہے اور سلیم شرح نا خواندگی میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ریمنڈ کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جبکہ سلیم کی معیشت چاک زدہ چادر کی طرح ہے گویا اس جدید دنیا میں ریمنڈ کی حیثیت ایک حکمران کی ہے اور سلیم کی حیثیت محض ایک رعیت کی ہے ۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصدمایوسی پھیلانا ہے نہ ریمنڈ کی مدح سرائی کرنا ہے بلکہ سلیم کی تحقیر آمیز پستیوں کو ریمنڈ کے ساتھ تقابلی جائزہ میں واضح کرنا مقصود ہے۔ اب بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلیم اور ریمنڈ میں تفاوت اگرختم نہیں تو کم کیسے کیا جائے؟اور دونوں کے اعصابی و جسمانی جوڑ ایک جیسے ہونے کے باوجود ریمنڈآگے اور سلیم پیچھے کیوں رہ گیاہے؟ یقیناََ سلیم کے اس حالت تک پہنچنے میں لاتعداد عوامل کار فرما ہونگے لیکن چند بنیادی وجوہات میں سلیم کا مختلف تعلیمی نظام میں تقسیم ہوکر پڑھنا ،آج کی دنیا کے تقاضوں سے ناموافق نصاب کا ہونا،اور سوال کرنے کی آزادانہ ماحول سے محروم ہونا شامل ہے جس کی وجہ سے سلیم کے عقلِ سلیم پر قفل لگا ہوا ہے اگرسلیم کے یہ تین بنیادی مسائل حل ہوجائیں تو ریمنڈ اور سلیم میں تفاوت کم ہونے کا عمل شروع ہوجائیگااور مطلوبہ مدت کے بعد سلیم بھی ترقی کی دوڑ میں ریمنڈ کے ہم قدم ہوگا۔