میرا موضوع بیچارہ مہمان پرندہ تلور ہے اور نہ اماراتی یاقطری شہزادے بلکہ میرا موضوع خاران اور واشک کے غریب اور پرامن عوام ہیں جن کو مفاد پرست اپنی ذاتی مفادت کی جنگ میں قبائلی تعصب اور نفرت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں گزشتہ دور سے خاران واشک کے سیاستدان عوامی مسائل کو چھوڑ کر صرف اور صرف امارسی اور قطری عرب شیخوں کی حمایت اور مخالفت ہیں پریس کا نفرنس احتجاج ریلی اور انکے طاقت کو دکھانے میں لگے ہو ئے ہیں خاران اور واشک کے عوام اتنے پر امن ہیں کہ اگر آپ شہر سے نکل کر اندرون علاقے میں جائیں تو لوگو ں کے گھروں میں چار دیواری بھی نہیں ہے نہ لوگوں کو اپنی حفاظت کیلئے بندوق ہے اور نہ کوئی اور اسلحہ بلکہ علاقے کے بوڑھے چرواہاکے ہاتھ میں اپنے ریوڑ کی خونخوار جانوروں سے حفاظت کیلئے صرف اور صرف ایک لاٹھی ہوتی ہے انتہائی مہرو محبت کرنے والے لوگوں کے معاشرے میں قبائلی تعصب اور نفرت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے سیاستدانوں کی مخالفت اور حمایت کا معاملہ صرف خاران اورواشک تک محدود ہیں بلکہ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ اور وفاقی دارلاحکومت اسلام تک پہنچ چکا ہے اورباقاعدہ ہر 2 فریقین ایک دوسرے پر قبائلی سطح پر حالات خراب کرنے کے الزامات بھی لگارہے ہیں اور علاقے میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دینے کی باتیں ہورہی ہیں ہمارے یہی سیاستدان جو گزشتہ 2 ماہ سے صرف اور صرف عرب شیخوں کی خوش آمد اور مخالفت میں اپنی تمام تر وسائل قوت خرچ کررہے ہیں آج تک میں نے نہ کہی دیکھا اور نہ سنا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے ورکروں اور حمایتوں کو علاقے میں اسکولوں کی بندش ٹیچرز کی کمی، کتابوں کی عدم فراہمی، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ادویات کی کمی ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی طالب علموں کیلئے اندرون اوز بیرون ملک اسکالر شپ، بے روز گاری کے خلاف، نوجوان نسل کو بچانے کیلئے منشیات کے خلاف کھیلوں کی سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے یا زندگی کے دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے پریس کانفرنس احتجاج یا ریلی کی کال دی ہو یقیناً اس بات کا جمواب نفی میں آئیگا کیونکہ ان سارے معاملات میں ہمارے محترم سیاستدانوں کا دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے نہ اُن کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور نہ سرکاری ہسپتالوں میں اُن کا علاج ہوتا ہے اور نہ علاقے کے جوہڑ اور بغیر فلٹر کئے مختلف بیماریوں کا جراثیم سے ملے ہوئے پانی پیتے ہیں آج جب اُنکی زاتی مفاد اور عناد کا مسئلہ ہے تو یہ لوگ امارتی اور قطری شیخوں کی حمایت اور محبت میں گلے پھاڑ پھاڑ کر دلائل دے رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو ایمانداری سے اپنے ہی دولت کا سالانہ زکواۃ نکالیں تو یہ خود اپنے علاقے کے سینکڑوں لوگوں کو سالانہ حج بھیجنے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو اسکالر شپ، اسکول اور ہسپتالوں میں ضرورت کی سامان فراہم کرنے اور دیگر فلاحی کام بھی کرسکتے ہیں لیکن افسوس کہ یہی دولت مند لوگ بھی کشکول لئے عرب شیخ کے آگے پھر رہے ہیں اورمعصوم عوام کے نام پر حج کے کوٹے لیکر اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں ضروخت کرتے ہیں یہاں پر بھی جب اُن کی پیٹ کی آگ نہیں بجھتی تو عرب شیخ کے جو سالانہ خیراتی راشن جو صرف اور صرف غریب اور مستحق لوگوں کیلئے آتے ہیں اُن کے کرایوں اور مقدار اور تعداد میں کمی بیشی کرکے اپنے اقرون کی خزانہ کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں آج معلوم ہوا کہ عرب شیخ تو اپنی بے تحاشادولت اور سیر تفریع اور شکار کی غرض سے آتے ہیں لیکن ہمارے انتہائی شریف اور عزت دار سیاستدانوں اور معتبرین کو بھی شریفانہ انداز میں بھکاری بناکر جاتے ہیں جبکہ ہی سیاستدان غریب لوگوں کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہم سب کو غریب کیلئے کررہے ہیں اگر واقعی یہی صورتحال ہوتی اور عرب شیخوں سے عوام کو کوئی فائدہ ہوتا تو آج عوام خود سڑکوں پر آکر اُن کے حق میں احتجاج کرتی لیکن عوام کی خاموشی اس بات کی سو فیصد تصدیق کرتی ہے کہ نہ عرب شیخوں کی شکار پر آنے سے غریب لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچتاہے اور نہ اُن کی نہ آنے سے کوئی نقصان البتہ اب جو صورتحال بنتی جارہی ہے اور زاتی مفاد کیلئے خاران اور واشک کے پر امن ماحول کو خراب کرنے کی جو سازشیں ہورہی ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ انتہائی پرامن اور پیار کرنے والے لوگ ہیں ان میں کوئی قبائلی تعصب اور نفرت نہیں ہے اگر ہمارے سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنے زاتی مفادات کے حصول کیلئے خاران اور واشک کے پرامن عوام کو قبائلی تعصب نفرت اور دشمنی کا بھینٹ چڑھایا اورعلاقے میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریگی۔