روز اول سے ہم نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی تھی اور حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ معمول کے قوانین کو زیادہ بہتر اور موثر بنائیں تاکہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اس سے پہلے (Speedy Trial Courts)تیزی کے ساتھ مقدمات کا فیصلہ کرنے والے عدالتیں قائم کیں گئیں تھیں ، حکمرانوں اور اعلیٰ عدلیہ کی عدم دلچسپی کے باعث وہ ناکام ہوگیا یا اس کو ناکام بنادیا گیا۔ ماتحت عدلیہ میں کرپشن اور نااہلی کے الزامات ہیں ابھی تک ان کی بہتری کے لئے کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں ۔ اس لئے سائل نامراد لوٹتے ہیں۔ دیوانی عدالتوں میں نسلوں کوپیشیاں بھگتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یورپی ممالک کے تجربا ت سے فائدہ اٹھایا جائے اور جلد سے جلد مقدمات کی سماعت کا کلچر رائج کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں ۔ دیر سے انصاف دینے کا مطلب انصاف سے انکار ہے۔ اس لئے جلد سے جلد انصاف کا نظام قائم کیا جائے۔ گزشتہ ادوار میں بلوچستان اور دوسرے علاقوں میں مقامی نظام کے تحت لوگ خود انصاف کرتے تھے یہ کاغذات پر بیانات نہیں لکھتے تھے زبانی کلامی لوگوں کی باتیں اور دلائل سنتے تھے اور فوری فیصلہ کرتے تھے جو قابل قبول بھی ہوتے تھے شاید ایک آدھ فیصلہ پر اعتراض ہوتا لیکن 99فیصد فیصلوں کو دونوں فریق تسلیم کرتے تھے۔ کیونکہ منصف حضرات اچھے اور ایماندار لوگ تھے۔ کسی حد تک قاضی کا نظام قابل اعتبار رہا، جب سے اس نظام میں کرپشن کا راج آیا ہے، قاضی کا نظام تباہ ہوگیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم جلد سے جلد تیز رفتاری کے ساتھ عدالتیں چلائیں اور اعلیٰ ترین لوگ اس کی نگرانی کریں۔ یہ عدالتیں تمام علاقوں خصوصاً بلوچستان اور دور دراز علاقوں میں قائم کیجائیں۔ بلوچستان میں سوائے چند ایک شہروں کے اگر جرگہ کا نظام اعلیٰ ترین سطح پر قائم کیا جائے تو اس کے فوائد عوام الناس کو ضرور ملیں گے۔ کیونکہ بلوچستان کے 29ایسے اضلاع ہیں جہاں پر وکیل موجود نہیں ہیں لوگوں کو دوسرے شہروں سے وکیل لانا پڑتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں ناظم اور تحصیلدار کی سربراہی میں عوامی جرگے تشکیل دیئے جائیں اور ان فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق صرف سیشن عدالت کو دی جائے۔