|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2017

جب ایک اتوارپہلے باضابطہ طورپردو دیرینہ دوستوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا تواگلے اتوار (11دسمبر)کو ایران نے سیستان و بلوچستان میں پاکستانی مکران کے سرحد کے قریب جنگی مشقیں شروع کردیں توقع کے بر خلاف جوشخص سوشل میڈیا اور پبلک میں پروپیگنڈے کے محاذ پر سب سے زیادہ سرگرم تھا ‘ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ( ایک زور دار کنکر) یار لوگ انگشت بدنداں رہ گئے کہ یہ کیا ماجرا ہوا ؟( وہ تم نہیں جانتے جو ہم جانتے ہیں )’’ اپنے ‘‘کہنے لگے کہ کیچی قیادت کے مطابق یہ شخص اپنا آدمی ہے ’’ لیکن کیچی قیادت بھول گئی کہ ان کوان دیرینہ دوستوں کے نسبت کون بہتر سمجھتا اور جانتا ہے ؟ اس لیے اگر ان کا خیال ہے کہ اس کنکر سے وہ اپنے ناراض دوستوں کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ان کے بارے میں جو انکے نچلے کیڈر کا خیال ہے وہ درست ہے کہ” ہماری قیادت کی فکری اور احساسی سوئی 1988ء کے حالات کے نکتے پر اٹکی ہوئی ہے‘‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوتے کہ نہ نکالے جانے کی خوشی میںیہ شخص اپنے فیملی اور دوستوں کوچھوڑ کر بد خواہوں کے دام میں آپھنسیں گے البتہ اس سلسلے میں یار لوگوں کو بھی مایوسی ہوئی جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کے کسی اقدام سے پارٹی کے مخلص اور نظریاتی ورکر زکسی رد عمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قیادت پارٹی ورکروں کے اندر اخلاص کے خاتمے کے لئے لالچ کا اسپر ے کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لیے اگر پارٹی کے “بزرگ قائد” یا دیرینہ ساتھیوں کو پارلیمانی دوست کسی بھی قت پارٹی سے نکال دیں تو ’’ نظریاتی ورکر ‘‘ صرف پارلیمانی دوستوں کاساتھ دیں گے ۔ اس صورت حال میں اہم سوال یہ ہے کہ کیچی قائدین میں یہ اعتماد کہاں سے اور کیونکردر آیا کہ پارٹی کے سب سے مضبوط سیٹ کے مالکوں کو بنا کسی جواز اورکسی بحث و دلیل کے نکال باہر کردیا گیا ؟ اس سوال کا جواب 2018ء کے الیکشن سے پہلے واضح ہوجائے گا ۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اچانک ایران نے ایرانی مکران میں پاکستانی مکران کے قریبی علاقوں کے نزدیک مشقیں کیوں شروع کردی ہیں ؟ گریٹ گیم کے نئے ایپی سوڈ میں کردار ‘ کہانی ‘ ڈائریکٹر اور اسٹیج سب تبدیل ہوچکے ہیں ۔ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اپنی کامیابی کی زم میں مقتدرہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہی کہ دو قطبی دنیا میں انہوں نے جو جو اسٹریٹیجک چالیں چلی ہیں ان سے کہانی میں شامل دیگر کردار بے خبر رہے ہیں لیکن کچھ عرصے سے ایران کی پاکستان کے متعلق پالیسیاں اور اس کے ساتھ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے خارجہ پالیسیاں اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمیوں سے اس خوش فہمیوں کا غلط فہمیوں میں متبدل ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ چشم کشاہے کہ اگر ہم ایران جیسے قدامت پرست ریاست کو دھوکہ دینے میں دھوکہ کھا گئے ہیں تو دوسرے جدید ترقی یافتہ ‘ خلا اور تہ زمین کو کنٹرول کرنے والے ممالک کے بارے میں ہمارے اندازے کس نہج تک درست ثابت ہوسکتے ہیں؟ اور یہ زم کب تک برقرار رہے گا کہ جن پتوں پر ہمارا تکیہ تھا ( طالبان اور جہادی گروہیں )وہ سب ہوا دینے لگے ہیں موجودہ حالات میں بقول ہمارے خفیہ اداروں کے سب کے سب’’ را‘‘کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں ،وہ اپنا’’ بھارت کی تباہی ‘‘کا ہدف چھوڑ کر ہماری تباہی کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں ۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ ہم مالک کاوہ بلی ہیں جس کی ’’ میاؤں‘‘سے مالک کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟ خارجہ پالیسی کا کڑوااصول ہے کہ آپ اپنا ہمسایہ تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ہمارے لیے یہ زہر یلا بھی ہے کہ ہم سے ہمار اکوئی بھی ہمسایہ راضی اور مطمئن نہیں ۔ مقتدرہ کافر اور کمیونسٹ چین سے چاہے کتنی ہی کیوں نہ قربتیں بڑھائے ایران کو اس امر کا اپنی جگہ باخوبی ادراک ہے کہ اگر گوادر عسکری بندر گاہ کی صورت میں کافر چین کے ہاتھ آگیا تو امت کے ایمان میں کیسی کیسی دراڑیں پڑ جائیں گی گویا ایران کو معلوم نہیں کہ چین کی نگاہ بلوچ ساحل پر موجود یورنیم اور تیل کے ذخائر سے ہے ۔ اب ہمارے سابقہ آرمی چیف 39ممالک پر مشتمل سعودی اتحاد کے سربراہ بننے جارہے ہیں ۔؟؟ ستم ظریفی یہ نہیں کہ ہم سے ہمارے ہمسایہ ناراض ہیں بلکہ یہ ہے کہ گھر والے اور ہم وطن بھی ہم سے خوش اورمطمئن نہیں ۔گریٹ گیم کے نئے ایپی سوڈ میں بلوچستان میں مکران اور جھالاوان کی سیاست اہم گردانی جارہی ہے اب نیرنگی دوران تو دیکھئے کہ مکران کی سیاست کی تمام باگ ڈور جھالا وان کے ہاتھوں میں ہے ۔ نیشنل پارٹی کی قیادت حاصل خان بزنجو کررہے ہیں ۔ بی این پی (عوامی ) کی قیادت میر اسرار زہری سرانجام دے رہے ہیں ۔ بی این پی ( مینگل ) کے قائد اخترمینگل ہیں موجودہ ویزراعلیٰ نواب ثناء زہری کا بھی تعلق جھالاوان ہی سے تو ہے ۔ گریٹ گیم کے پچھلے ایپی سوڈ میں روس اور بھارت کے علاوہ پوری دنیا ہمارے ساتھ کھڑا رہی ہمارے بیانیے کا ہمنوارہا تمام مغربی اور اسلامی دنیا کی معاشی ‘ سیاسی ‘ اخلاقی اسٹریٹجک حمایت ہمارے ساتھ تھی ۔ ایران اور سعودی عرب مسلکی دشمنیوں کے باوجود ہمارے تربیت یافتہ جہادیوں کو یکساں طورپر مالی اورجنگی مدد فراہم کرتے رہے ۔ اور پاکستان اور افغانستان میں موجود جہادی گروہ بے چوں چراں ہمارے بیانیے اور احکامات پر عمل کرتے رہے ۔ لیکن آج بقول سلیم صافی طالبان اور دیگر جہادی گروہ امریکا اور کافر چین پر اعتماد اور بھروسہ کرنے پر تیار ہیں لیکن ہمارے کہے اوربیانیہ پر نہیں ۔ جو جہادی کسی وقت ہمارے انگلیوں پر ناچتے تھے آج ہمارے دشمنوں کے اشاروں پر محو رقص ہیں !اس لیے ہم پچھلے بیس ‘ بائیس سالوں میں جس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ روس کو توڑ کر ہم جنگ جیت چکے ہیں اصل میں وہ جنگ تو ابھی شروع ہونے والی ہے۔ جسے ہم کہانی کا Climaxeسمجھے تھے دراصل وہ تو Esxpostionتھا ۔ جب کہ anti Climaxeاور Endابھی کافی دور ہیں اور کہانی کے کلائمکس پر تمام Pro-heroکردار Vilanسے آملے ہیں اور اس پس منظر میں مقتدرہ مکران اور جھالاوان کی جس سیاسی قیادت پر اکتفا کررہی ہے وہ بہت کمزور ‘ بے اعتماد،قوت فیصلہ سے عاری اور نا قابل بھروسہ ہے ۔ اس سلسلے میں مقتدرہ کی دوسر ی بڑی غلطی اور خوش فہمی یہ ہے کہ بی ایس سے پروان چڑھی 1986کی ابھرتی قیادت ان کے چنگل میں ہے اور وہ ان سے جس طرح کا چاہیں کام لے سکتے ہیں جو ایک خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں جنہوں نے امریکا ‘ جام اور جمالی مردہ باد کے نعرے لگوائے جس پر بلوچ قوم اعتماد اور بھروسہ کرتی رہی ہے لیکن آج پچیس سال بعد زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں اگر مقتدرہ اب تک خواب غفلت میں نہیں تو انہیں مکران کے حالات کا ادراک ہوجانا چائیے کہ جس گروہ کووہ قوم پرست سمجھ رہے ہیں وہ تو سویت یونین کے خاتمے کے بعد والے قوم پرستانہ بیانیے میں قطعی طورپر شامل ہی نہیں جس کا ابھار 1998ء میں قلات واقعہ کی صورت میں سامنے آیا تھا ۔ البتہ 1988ء سے 2000ء کے دوران یہ کشت پارینہ غوث بخش بزنجو کے اس طبقاتی سیاست کے سانچے میں فیکس آگئی جس کی ان کو اور مقتدرہ کو کافی عرصے سے خواہش رہی تھی لیکن دنیا کی دیگر مظاہرات کی طرح جن اسباب سے جو نتائج منسوب اوروابستہ رکھے جاتے ہیں وہ اکثر وہ نتائج لے کر نہیں آتے ،اس تناظر میں مقتدرہ کی یہ خواہش ضرور پوری ہوگئی ہے کہ یہ پورا گروہ ان کے شکنجے میں آ پھنسا ہے لیکن مقتدرہ نے جس مقاصد کیلئے اس گروہ کو شکنجے میں جھکڑنے کی کوشش کی تھی وہ مقاصد اب اس گروہ سے منسوب و منسلک نہیں ہیں مقتدرہ کی تمنا رہی ہے کہ اس گروہ سے چونکہ مکران کے عوام کے قوم پر ستانہ جذبات وابستہ ہیں اس لیے ان کے مقتدرہ کے انگلیوں پر ناچنے سے سی پیک کا خطہ کنٹرول ہوجائے گا لیکن مکران کے موجودہ صورت حال میں سیاسی حالات اس کے برعکس ہیں کیونکہ موجودہ تناظر میں نہ تو مکران کے عوام ان کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قوم پرست بلکہ 2013ء کے انتخابات کے بعد یہ نواب اسلم رئیسانی ‘ نواب ثناء اللہ زہری ‘ نواب ذوالفقار علی مگسی ‘ اسلم بھوتانی ‘ نواب باروزئی اور سردار صالح بھوتانی سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ وفاق کے علامت سمجھے جاتے ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات ریکوڈک ‘ سیندک پروجیکٹ اور گوادر کے حوالے سے ان کی پالیسیاں پچھلے تمام حکمرانوں سے کمزور اور بزدلانہ رہی ہیں دوسرا ان کے دور حکمرانی میں پچھلے ادوار کے نسبت مکران میں سب سے کم نوکریاں دی گئیں اور اس وقت مکران میں بے روز گاری حد سے بڑھ چکی ہے جبکہ ایک مخصوص سازش کے تحت ان نام نہاد قوم پرستوں نے اسکا الزام وفاق کے سرباندھ لیا ہے اور لوگوں کو باور کرایا ہے کہ پنجابی مقتدرہ بلوچوں کو نوکریاں دینے سے کتراتی ہے۔ایک طرح سے یہ حکمران مکران کے عوام اور وفاق میں دوریاں پیدا کرنے میں ان پانچ سالوں میں بڑے سرگرم رہے ہیں اس لیے اس وقت مکران کے عوام میں مقتدرہ کے نمائندے کی حیثیت سے ان کے خلاف ایک نفرت پائی جاتی ہے جس کی ایک واضح مثال پچھلے دو سالوں میں ان کے نظریاتی دوستوں کے پارٹی چھوڑ کر دوسرے پارٹیوں کی شمولیت میں سامنے آیا ہے ۔ حالانکہ 2013ء کے انتخابات کے دوران مکران میں ان کی سیاسی حیثیت واضح ہوگئی جو صرف 700ووٹ لے کر جیت گئے تھے اور اس سے پہلے اگر ان کی کوئی قوم پرستانہ بساط موجود ہوتی تو وہ 1993ء سے لے کر 2013ء تک میر محمد علی رند اور سید احسان شاہ جیسے غیر سیاسی شخصیات سے بیس سال تک مسلسل ہارتے نہ رہتے ۔اس سے واضح ہے کہ ان کی جو قوم پرستانہ ساکھ 1988سے لے کر 1993ء تک برقرار تھی وہ 1993ء کے بعد ختم ہوچکی ہے ۔ غلط پالیسیوں اور خوش فہمیوں کے اس منظر نامے پر دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ مقتدرہ کی طرف سے اختر مینگل اور دیگر حقیقی بلوچ قوم پرست گروہوں کو منظر سے ہٹانے اور دباؤ میں رکھنے کیلئے ایک دفعہ پھر اس گروہ کو پروان چڑھا کر 2018ء کے انتخابات کے لئے منظم کیاجارہا ہے ۔ جس کے لئے اس گروہ کی میٹھی باتوں میں آ کر مقتدرہ نے مکران اور جھالاوان میں ایک نیا قوم پرستانہ اتحاد تشکیل دینے کے لئے مخصوص افراد کا چناؤ کردیا ہے جس میں اس گروہ نے 2013ء سے اپنے ناراض دوستوں کو منانے اور گستاخی کرنے والوں کو 2018ء کے انتخابات کے بعد عبرت کا نشان بنانے کی ٹھان لی ہے ۔ اگر نوح اپنی کشتی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو 2018ء کے انتخابات کے بعد انتقام کی سولی پر فدا حمد ‘ منظور گچکی اور کہور خان جیسے نئے نام لٹک رہے ہوں گے۔ اور اگر مقتدرہ کی حمایت اور آشیر باد حاصل رہی تو یہ نا ممکنات میں شامل نہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں اکبر آسکانی ‘ احسان شاہ اور پنجگور سے اسد اللہ کو ملا کر کوئی گرینڈ اتحاد بنا کر بی این پی ( مینگل ) کو منظر نامے سے ہٹا دیاجائے ۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرے گا کہ تمام قوم پرست متفقہ طورپر اسمبلی میں موجود ہیں اس اثناء میں حضرت نوح نے اپنی دنیا بچانے کے لئے اپنے بیٹے کنعان کی قربانی دی تھی تو ہمارے موجودہ نوح کھڈان اور کلگ کی قربانی دینے سے کسی بھی طرح نہیں ہچکچائیں گے لیکن اس پس منظرمیں مقتدرہ کو سی پیک کے راستے میں موجود مکران کے عام عوام کو نظر انداز نہیں کرنا چائیے جن کو اب قوم پرستوں نے پچھلے پانچ سالوں میں غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ گریٹ گیم کے نئے ایپی سوڈ میں مکران کے ان غربا کے لئے خلیجی ممالک کا آپشن موجود نہیں جو پچھلے ادوار میں اپنی غربت کی آگ بجھانے کے لئے وہاں جاتے تھے ۔ اس لئے مکران میں اکثریتی آبادی کی رائے کو نظر انداز کرکے ایک مخصوص ذہنیت کے گروہ کو ان پر مسلط کرنا مستقبل بعید میں کسی رد عمل پر ہوسکتاہے جس کی تاکہ میں پاکستان کے ہمسایہ تیار بیٹھے ہیں ۔ پھر اس اتحاد سے ممکن ہے کہ مکران کے اشرافیہ طبقات مستفید ہوں جو وقتی طورپر مقتدرہ کے جذبات کی تشقی کر سکیں لیکن اس تشقی کے دوررس نتائج ملک کیلئے خطر ناک ہوسکتے اورلیکن سی پیک کے ارد گرد شاہراہ ریشم سے لے کر صوبہ خیبر پختوانخوا اور گوادر تک موجود آبادی تباہی کی علامت بن جائے گی نوح کی کشتی میں شیطان گدھے کاسہارا لیکر اس پر سوار ہوگئے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ گدھا اور شیطان کا کردار کون ادا کریں گے؟