کوئٹہ: کوئٹہ ، شمالی بلوچستان اور صوبے کے دیگر بالائی علاقوں میں تین دن سے جاری برفباری کا سلسلہ تھم گیا تاہم معمولات زندگی بدستور متاثر ہیں۔ بجلی اور مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہے۔ کوئٹہ چمن ، زیارت سنجاوی، کوئٹہ مسلم باغ شاہراہ ٹریفک کیلئے بند رہی ۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ بلوچستان کے شمالی علاقوں زیارت، کان مہترزئی ، خانوزئی ، توبہ اچکزئی ، توبہ کاکڑی،قلات، ہربوئی سمیت دیگر علاقوں میں تین روز بعد برف باری کا سلسلہ تھم گیا تاہم راستے نہ کھلنے کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے برف باری کے باعث پھنسے افراد کیلئے اب تک کوئی انتظامات نہیں کئے گئے ،ایف سی اور ضلعی انتظامیہ کی کوششوں سے صوبے کے قومی شاہراؤں کو عارضی طورپر کھول دیاگیا تاہم اب بھی بڑی گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی اور لوگوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے بلوچستان کا ملک بھر سے رابطہ منقطع ہونے کے باعث سبزیوں اور فروٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیا تاہم اسکے علاوہ مختلف دیہاتوں اور گاؤں کو جانے والی راستے بدستور بند ہیں توبہ کاکڑ ی ،توبہ اچکزئی ،زیارت اور رود ملازئی میں شدید برف باری کے باعث خوراک اورادویات کی قلت پیدا ہوگئی چار دن گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے پھنسے افراد کیلئے امدادی سرگرمیاں شروع نہ ہوسکیں۔ کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس انڈسٹریل ایریا میں واقع ڈیڑھ درجن سے زائد فلور ملز مشروبات بنانے والی کمپنی کے چھت گرنے سے کروڑوں روپے کی گندم ،مشینری ، شیڈ اور دیگر کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ شہرکے وسطی اور نواحی علاقوں میں بھی بجلی کے کھمبے گرنے سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیاہے بلکہ سینکڑوں ٹیلی فون بھی مکمل طور پر خاموش ہوگئے ہیں ، اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا نظام بھی گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران عوام کے لئے درد سر بنا رہا ۔ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالواحد کاکڑ نے انڈسٹریل ایریا سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں فلور ملز مشروبات بنانے والی کمپنیوں اور گھروں کی عمارتوں کو ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ، وہ انڈسٹریل ایریا میں واقع فلور ملزاور دیگر متاثرہ عمارتوں کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے تو اس موقع پر بلوچستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سید ظہور آغا سمیت دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے جنہوں نے ڈپٹی کمشنر کو متاثرہ فلور ملز کی چھتوں اور دیگر کا معائنہ کرایا اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ فلور ملز مالکان مشروبات بنانے والی کمپنیوں اور دیگر کو گندم ، مشینری ، شیڈ سٹریکچر کی مد میں کروڑوں روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ انڈسٹریل ایریا میں 16 سے 18 فلور ملز اور مشروبات کی کمپنیوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اس لئے حکومت ان کے نقصانات کے ازالے کے لئے اقدامات اٹھائیں اس موقع پر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالواحد کاکڑ کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں بارشوں اور برف باری سے ہونے والے نقصانات کے جائزے کے لئے کام کا آغاز کردیا گیا ہے ان کے شہر کے مختلف علاقوں کے دورے کامقصد یہی ہے کہ نقصانات کے حوالے سے صحیح اعداد و شمار اکھٹی کی جاسکے اور ان کے ازالے کے لئے حکومت کو رپورٹ دی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ برف باری اور بارشوں سے جانی نقصان نہیں ہوا کوئٹہ میں جو مزدور زخمی ہوئے تھے انہیں طبی امداد دی جارہی ہے ۔دوسری جانب کوئٹہ کے مختلف وسطی اور نواحی علاقوں میں بجلی کے گرے ہوئے کھمبے اور زمین پر پڑے تار عوام کے لئے ڈراونا خواب بن گئے ہیں عوام نے بجلی کے کھمبوں کو فوری طور پر مرمت کرکے بجلی بحالی کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ کوئٹہ کے علاوہ پشین کے علاقے کلی طورخیل سیدان ، کلی پوپلزئی اور دیگر میں بھی بجلی کے کھمبے گرنے سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ علاقوں میں بجلی کے گرے کھمبے ،ٹرانسفارمر اور تار عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں تاہم ابھی تک کیسکو کی جانب سے ان کی مرمت کے لئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے جاسکے ہیں جس پر اہلیان علاقہ نے تشویش کااظہار کیا ہے۔ادھر خاران میں گزشتہ شب ہونے والی بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی آگئی۔ سیلابی ریلوں نے آبادی کا رخ کرکے تباہی مچادی۔ سینکڑوں کچے مکانات منہدم ہوگئے۔ خاران میں دو روز تک جاری رہنے والی بارش کے بعد سیلابی پانی دیہاتوں اور گھروں میں داخل ہوگیا۔ یونین کونسل ٹوہ ملک ، طوطازئی ، کلی بیدی ، جامک اور سراوان کے دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے جہاں سینکڑوں کچے مکانات منہدم ہوئے۔ کئی مکانات کی چار دیواری اور چھتیں گرگئیں جس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق خواتین ، بچے اور بوڑھے کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ گھریلو سامان اور خوراک بھی پانی میں بہہ گئی جس کے باعث متاثرہ علاقوں میں خوراک اور پانی کی بھی قلت پیدا ہوگئی۔ درجنوں میویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ کر ہلاک ہوگئے۔ متاثرین نے شکایت کی ہے کہ چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود کوئی امدادی ٹیم مدد کیلئے نہیں پہنچی۔ دریں اثناء شدید برف باری کے باعث ملک بھر سے رابطہ منقطع ہونے کے باعث سبزیوں اور گوشت کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کردیاگیا ہے ،کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں میں سبزیاں ناپید ہوگئیں۔علاوہ ازیں تین روز سے بنددرہ کوژک کے مقام پر بین الاقوامی شاہراہ کھول دی گئی آمدہ اطلاعات کے مطابق ڈپٹی کمشنر قیصر خان ناصر ، اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر کاشف ،ریسالدار میجر حاجی بصیر خان ، بی اینڈ آر اور این ایچ اے حکام کے کوششوں سے آج شام کو کوئٹہ چمن شاہراہ کو ٹریفک کیلئے کھول دی گئی جس کی وجہ سے مسافروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام سردی کی پراوہ کئے بغیر درہ کوژک میں شاہراہ کھولنے کے کام کا خود نگرانی کر رہے تھے جس کی بدولت آج شام کو کوئٹہ چمن شاہراہ کھول دی گئی تین دن سے مسلسل شاہراہ میں پھنسے ہوئے مسافروں اور ڈرائیوروں میں ٹریفک بحال ہونے پرخوشی کی لہر دوڑ گئی اور کوئٹہ چمن شاہراہ پرسر توڑ کوششوں کے بعد ٹرفیک بحال ہوئی ۔برفباری کے دوران شاہراہوں کو کھلا رکھنے کیلئے ان پر نمک ڈالا جاتا ہے لیکن اس بار بلوچستان میں کسی بھی مقام پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سڑکوں پر نمک پاشی نہیں کی ، جس کے باعث تمام اہم قومی شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں بند ہوگئی ہیں۔ایسے میں ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے بلڈوزر کے ذریعہ برف ہٹائی جاتی ہے، سڑک پر نمک چھڑکا جاتا ہے جس سے سڑک پر پھسلن اور حادثات کا امکان کم ہوجاتا ہے اور سڑک بھی محفوظ رہتی ہے، اس بار نمک پاشی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف شاہراہوں پر برف جم گئی ہے۔ڈپٹی کمشنر چمن قیصر ناصر کا کہنا ہے کہ این ایچ اے کی جانب سے ابھی تک نمک پاشی کے لیے عملہ دستیاب نہیں ہوسکااین ایچ اے موسم سرما کے تین ماہ کے لیے ایمرجنسی گلوبل بجٹ مختص کرتی ہے اور اس بجٹ کے تحت مختلف شاہراہوں پر ایمرجنسی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں تاہم اس سال نہ تو کہیں کیمپ لگائے گئے ہیں اور نا ہی این ایچ اے کا عملہ اور مشینری دکھائی دے رہی ہے۔مقامی انتظامیہ سرکاری اور کرائے پر حاصل کئے گئے بلڈوزر کی مدد سے سڑکوں سے برف صاف کرتی ہے تاہم مسلسل برف باری کے باعث شاہراہیں پھر بند ہوجاتی ہیں۔قلات میں حالیہ شدید برفباری کے باعث قلات میں سنگ داس، خالق آباد اور بدرنگ کے مقام پر آرسی ڈی روڈ بند ہونے سے پھنسی سینکڑوں گاڑیوں کو منزل کی جانب روانہ کردیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر قلات عزیزاللہ غرشین نے کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے بروقت امدادی کاروائی شروع کی ۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے سرکاری گھر میں آٹھ فیملیز کو جگہ دینے کے علاوہ قلات کے تین ریسٹ ہاؤسز جن میں بی اینڈ آر ریسٹ ہاؤس، پبلک ہاؤس، ہیلتھ ریسٹ ہاؤس اور بیچلر لاج میں تقریباً چالیس فیملیز کو رہائش اور کھانا فراہم کیا گیا اس کے علاوہ برفباری کے پہلے اور دوسرے دن تقریباً سینکڑوں مسافروں جن میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو مقامی انتظامیہ نے مین ہائی وے پر کھانا فراہم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل تین دنوں میں بذات خود ریسکیو کی نگرانی کررہا ہوں اور موٹر وے پولیس اور لیویز فورس آر سی ڈی شاہراہ پر پٹرولنگ کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برفباری کے دوران قلات سوراب اور خالق آباد کے ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کرکے ڈاکٹرز کو الرٹ کردیا گیا ہے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ آر سی ڈی شاہراہ پر ہوٹلز پر چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا ہے تاکہ مسافروں کو معیاری کھانوں کے علاوہ مناسب ریٹ پر کھانا مل سکے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا دودن کی مسلسل گریڈنگ کے بعد آج قومی شاہراہ مکمل طور پر کھل گئی ہے اور مقامی انتظامیہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لئے پٹرولنگ کررہی ہے۔