|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2017

ترجمہ: عمران بلیدی لوگ ماورائے قانون اغوا کیے جا رہے ہیں، مسخح شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں، دن دھاڑے اغوا برائے تاوان کے واردات رونما ہو رہے ہیں۔ نہ کرپشن کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی امن عامہ بحال کیا جا رہا ہے۔لوگوں کے مال و جائیداد پر زبردستی قبضہ کیا جا رہا ہے۔ خانہ اورمردم شماری کااعلان کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب محکموں اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کسی طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ سی پیک کاگھمبیر مسئلہ ہو، گوادر پورٹ یا نئے بلوچستان کا مسئلہ، بلوچ کی آبادی کا مسئلہ ہو یا بربادی کا۔ اس طرح کے بے شمار مسائل اِس وقت بلوچ قوم کو درپیش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِن تمام مسائل کے حل کی جگہ، فورم یاپلیٹ فارم کونسا ہے؟ گلی کوچے، بڑے بڑے ہوئلوں کے کانفرنسز ہال، عدالت، اسمبلی یا سینٹ ؟مسائل کس پلیٹ فارم پر زیر بحث لائی جائیں؟ جمہوری جدوجہد میں اسمبلیاں ہی سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ حقیقی جمہوری ممالک میں اختیارات کا سر چشمہ اورمنبع یہی اسمبلیاں اور سینٹ سمجھے جاتے ہیں جہاں عوامی نمائندے اپنے عوامی مسائل کے حل کے لئے انہی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جہاں قانون سازی کی جاتی ہے اور عوامی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہمارے نمائندے اور رہنما ء جو اِن اداروں میں بطور حزب اقتدار یا حزب اختلاف بیٹھے ہیں، عوامی مسائل کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں؟ اور اِن مسائل پر اُنکا موقف کیا ہے؟ ہم میں سے اگر کسی کوکبھی اسلام آباد میں سینٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا ہو وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایوان میں کتنی خالی کرسیاں اپنے مالکان کی راہ تھک رہی ہوتی ہیں سینٹ میں اکثر سیاسی جماعتیں اپنے اُن ممبران کو منتخب کرواکربھیجتی ہیں جو پارٹی میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ،جو اکثر سب سے زیادہ بہرے، گونگے اور اندھے ثابت ہوتے ہیں۔اِن میں چند لوگ ہیں جو اپنے پارٹی قائدین کوکروڑوں روپے نوازتے ہیں اور چند ایک وہ ہیں جو اسمبلی ممبران کو خرید کر ووٹ بٹورتے ہیں۔ اب انکونہ تو قانون سازی کا کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی یہ عوامی عمومی مسائل سمجھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ دراصل اِن بیچاروں کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔جسکی تگ ودو میں یہ اپنی مدت ملازمت پوری کر تے ہیں۔ دو، چار کو چھوڑ کر۔ مکران سے بھی ایک ایساہی سنیٹر سینٹ میں جا پہنچا تھا جس نے چھ(6)سالوں میں 6منٹ بھی کسی مسئلے پر گفتگو نہیں کی۔ اجلاس میں صرف جمائیاں لینے کے لئے جاتا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارٹیاں سینٹ میں جمائیاں لینے کے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ آفرین اُن اسمبلی ممبران کو جنھوں نے ان کو ووٹ دیئے۔ وسعت اللہ خان اپنے ایک کالم میں تحریرکرتے ہیں کہ ایک اسمبلی ممبرکو ایک اچھے اور باصلاحیت وکیل سے زیادہ تیاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسمبلیوں کے اندر شاندار لائیبریریاں موجود ہیں لیکن ہمارے نمائندوں نے وہاں نہ جانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔میں 1989میں بطور اسپیکر بلوچستان اسمبلی میں ایک اسپیکر کا نفرنس میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لے گیا، جہاں میری ملاقات اُس وقت کے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منظور وٹھو سے ہوئی جس نے مغربی پاکستان کے اسمبلی ممبران کے خصوصی تقاریر چھاپ دیئے تھے۔ انھوں نے اسکی ایک ایک کاپی ہم تمام اسپیکروں کو عنایت فرمائی اور مجھے خصوصی طور پر کہا کہ آپ ’’باقی بلوچ‘‘ کو جانتے ہیں میں نے کہا’’ جی ہاں‘‘ پھر گویا ہوئے کہ اُنکی خصوصی تقاریر بھی موجود ہیں انھوں نے کہا کہ وہ اُن دنوں میں لاہور کا لج میں پڑھ رہا تھا اور وہ باقی بلوچ کا خطاب سننے کے لئے اکثر اسمبلی جاتا رہتا تھا۔ باقی بلوچ کے خطاب کے دوران اسمبلی میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی وہ اس طرح دلیل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے گویا دیگر اسمبلی ممبران کواپنے موضوع پر سبق پڑھا رہے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ اُنکی باقی بلوچ سے اکثر نشستیں ہوتی رہتی تھیں انھوں نے ایک دن اُن سے پوچھا کہ وہ اپنی تقریر کی تیاری کس طرح کرتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا تھا کہ انھیں جس موضوع پر اسمبلی میں گفتگو کرنی ہوتی ہے تو وہ اُس کی تیاری 15دن پہلے شروع کر دیتے ہیں۔ اُس موضوع پر کتابیں پڑھتے ہیں، پروفیسر کے ساتھ گفتگو اور بحث کرتے ہیں، ادبا اور صحافی حضرات کے ساتھ مشورے کرتے ہیں۔ اور اُن کی تیاری اِس طرح کی ہوتی تھی کہ وہ بحث میں نہیں، جنگ میں جار ہے ہیں اور ایک ایسی جنگ میں جسے اُس نے جیتنی ہے۔ جنھوں نے اُن کو اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا وہ اُن کے لیے اپنا حق ادا کرنا چاہتے تھے اوروہ اپنی خطاب سے ثابت کرتے تھے کہ باقی بلوچ نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اِس معاملے میں اُن کی اپنی کوئی غرض وغایت نہیں تھی‘‘ باقی بلوچ کی نسبت ہمارے صوبائی اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینٹ کے نمائندوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ان میں اکثریت کس طبقے سے تعلق رکھتی ہے؟ اِن میں 80فیصد جاگیردار، سرمایہ دار،معتبر، وڈیرہ، سردار، علاقائی میر ،صنعت کار اورسرمایہ کار برا جمان ہیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں ایک سیٹ کے لئے کروڑوں روپے خرچ ہو تے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات کے لئے تو بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ کروڑوں خرچ کرنے اور بولیاں لگانے والوں کوکیونکرعوامی مسائل سے دلچسپی ہو؟بلوچ قوم اِس وقت گھمبیر مسائل سے دوچار ہے یوں سمجھیں کہ بلوچ قوم اپنی مرگ وزیست کی جنگ لڑ رہی ہے۔مردم شماری کا جن، قومی بقا اور تشخص کا سوال، سی پیک، ساحل ووسائل کی حفاظت کا مسئلہ، چین کا سیندک، ریکوڈک اور در یجی میں بلوچ وسائل کا بے دریغ لوٹ مار اور پاکستانی و حدت میں بطور بلوچ صوبہ، اختیارات کا مسئلہ۔ اِس سلسلے میں اگر حزب اقتدار جماعت نے اپنے جماعتی اور ذاتی مفادات کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسمبلی میں موجود حزب اختلاف استحصالی قوتوں کے سامنے کیوں خاموش ہیں؟کیا بطور حزب اختلاف بی این پی نے اِن مسائل پر اپنا کردار ادا کیا؟ بی این پی قائد سردار خترجان مینگل گلی کوچوں میں جلسے اور جلوس منعقد کرتے رہتے ہیں لیکن اسمبلی جو مسائل پر گفتگو اور بحث کے لئے موزوں ترین جگہ ہے وہ اُس سے اجتناب کرتے ہیں ۔موجودہ حالات کے تناظر میں بی این پی کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسمبلی فلور کو اپنے مسائل کے حل کے لئے بطور موزوں پیلٹ فارم استعمال کریں ،اگر وہ اسمبلی میں جائیں اور اپنے مسائل پیش کریں لامحالہ ان کی بات سنی جائے گی۔بی این پی کے لئے ضروری ہے کہ وہ افغان مہاجرین، گودار پورٹ، سی پیک، مردم شماری، سیندک، ریکوڈک، دریجی اور بلوچ ساحل و وسائل کی لوٹ مارے کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں اپنی آواز اٹھائے۔ اِس سلسلے میں اسمبلی کے اندر اور باہر نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کا اتحاد ناگزیر ہے۔ موجودہ سیٹ اپ میں قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں وزراء اور نمائندوں کے دستیاب مراعات کے سامنے اُن کی کار کردگی نہایت ہی کمزور ہے۔اسمبلی میں بیٹھے نمائندوں کی ماہانہ تنخواہیں، میڈیکل الاؤنسز، فرسٹ کلاس ائیر ٹکٹس، بچوں اور فیملی کے اخراجات کل ملا کر مہینے میں 10لاکھ سے زائدبنتے ہیں، ماہانہ کروڑوں کے کمیشن کی بات ہی نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اِن تمام مراعات کے باوجود کیا یہ نمائندے اپنے حلقوں کے مسائل کے حل کے لئے کچھ کر پا رہے ہیں یا نہیں؟ کوئی اُن کو بتائے کہ یہ جو ماہانہ کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ اِن کے باپ دادا کی کمائی نہیں بلکہ عوام کے ٹیکسز اور محنت کی کمائی ہے۔ یہ کمیشن کو چھوڑ کر صرف اپنی تنخواہ کی حیثیت کے مطابق عوامی کام کریں تو بھی بڑی بات ہے لیکن اِن کی تنخواہ زیادہ ہے اور کام کم۔ اِس پس منظرمیں عوامی حالت زار بدلے یانہ بدلے البتہ اِن پانچ سالوں میں ان کی اپنیمعاشی اور سماجی حالت ضرور تبدیل ہو جاتی ہے۔