حالات اچھے نہیں ہیں ہرطرف سے ایک چیخ وپکار ہے جولوٹ رہاہے وہ بھی مطمئن نہیں اورجولوٹے جارہے ہیں ان کاسکون بھی برباد ہے۔مسجد ،مندر گردوار،عبادت گاہیں کہیں بھی کچھ محفوظ نہیں ۔انصاف کاخون انتہائی ارزاں ہوچکاہے روزانہ لوگ مرتے ہیں مارے جاتے ہیں اخبارات کی شہ سرخیاں چنگھاڑتی رہ جاتی ہیں۔ ہرچینل پرایک بریکنگ نیوز چلتی ہے جن کے گھر جل جاتے ہیں صرف ان کے سینوں میں آگ باقی رہ جاتی ہے ۔ باقی ۔معمول بن جاتاہے۔
ایک دن(یہ چند سال پہلے کی بات ہے ) ایک بریکنگ نیوز چلی کہ قبائلی علاقوں میں بم دھماکے پرہمارے ایک دوست نے پوچھا ’’کتنے لوگ مارے گئے ؟‘‘جواب ملا’’دو لوگ‘‘اس نے حیرت اورمایوسی سے کہاکہ’’صرف دو لوگ‘‘؟ ’’ہاں صرف دو لوگ‘‘ پھر جواب ملا دوست نے انتہائی لاپرواہی ،بے حسی کیساتھ کہاکہ یہ تو کوئی خبر نہیں ہے خبر کیلئے کم از کم 50 سے زائد لوگوں کاماراجانا ضروری ہے۔ناانصافی،لوٹ مار،استحصال پرکسی کواب تکلیف بھی نہیں ہوتی سنتے ہیں لوگ سہتے ہیں خاموش رہ جاتے ہیں چند سال قبل تک قوم پرستوں کے حوالے سے بڑی خوش گمانیاں لوگوں میں پائی جاتی تھیں لیکن وہ اقتدار میں آئے اورایسے سجدہ ریز ہوئے کہ شا ید مسلم لیگیوں کوبھی شرم محسوس ہوئی ہو۔
یہ ہے وہ معاشرہ جس میں ہم جی رہے ہیں جس میں جس کاجوبھی جی چاہئے کر ڈالے کوئی پوچھنے والا نہیں چور اچکے ،جیب کتریں قوم کے رہبر بن چکے ہیں زرد صحافت اورزرد عمل والے دانش ور اورمسیحا بن چکے ہیں سچ کوئی بولتا نہیں کیونکہ اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے ایماندار،باکردار اورباضمیر لوگوں کی اب اس معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں یاتو وہ وہی لکیر پکڑ لیں جوجیب کتروں کی ہے یا پھر خود کشی کرلیں یاپھر گوشہ گمنامی میں چلے جائیں کیونکہ یہاں نئے خیالات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہمارے اکابرین نے کیاایسے معاشرے کیلئے جدوجہد کی تھی ؟ وہ اپنی نسلوں کیلئے کیاچھوڑآئے !
چونکہ مضمون خان عبدالغفار خان( باچاخان) سے متعلق ہے ان کادور یقیناًاور تھا ۔ لیکن اس وقت بھی سیاست میں چوراچکے توموجود تھے۔پھر ہمارے اکابرین نے دور تک ،صدیوں تک کیوں نہیں دیکھا؟ کیاان کی سیاسی حکمت عملی غلط تھی؟ یاپھر وہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد لوبھرنے والی اشرافیہ اوراس کے مزاج کوسمجھ نہیں پائے ۔
نہرو نے اپنی کتاب ’’تلاش ہند‘‘ میں ہندوستان کے غلام ہونے کی تین وجوہات بتائی ہیں ان کاکہناہے کہ اکبر جیسے جہاندیدہ اورقومی حکمران سے تین بڑی غلطیاں ہوئیں جس کوہندوستان نے بھگتا ۔اول یہ کہ اکبر کے زمانے میں سمندر کی جو اہمیت تھی اور سمندر کے ذریعے جس طرح یورپی ممالک نوآبادیات قائم کررہے تھے اس پراکبر کی نظرنہیں پڑی اکبر کے زمانے میں گھڑی ایجاد ہوچکی تھی لیکن ہندوستان میں خود ان کے دربار میں لوگ روایتی طریقوں سے وقت معلوم کرتے تھے یعنی ان کوسائنس ،سائنسی ایجادات سے متعلق چندان معلومات اوراہمیت کااحساس نہیں تھاتیسری ان کی غلطی یہ تھی کہ ان کے دورمیں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوچکاتھا لیکن انہوں نے پریس کی صنعت اس لئے نہیں لگوائی کہ ان کواندیشہ تھاکہ اس سے کاتب بے روز گار ہوجائیں گے بظاہر یہ چھوٹی غلطیاں تھی لیکن انہی غلطیوں نے ہندوستان کوغلام بنایا اورہم اس خطے سے منسلک ہونے کے باعث آج بھی لوٹ اوراستحصال کاشکار ہیں۔جب باچاخان نے ’’ عدم تشدد‘‘ کے نظریے کی پرچار کی توان کاخیال تھا کہ وہ اس سیاست کے ذریعے ااپنی قوم بلکہ تمام محکوم اقوام کوظلم اورغلامی سے نجات دلائینگے لیکن ایسا نہیں ہوسکا پختونخوا کاریفرنڈم اس کے بعد خان صاحب کی حکومت کی برطرفی یہ ایسے معاملات تھے جومستقبل کے منظر نامے کوصاف کرنے کیلئے کافی تھے ۔
اس وقت بلوچ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ جی ایم سید،شیخ مجید الرحمن اورباچاخان ایسے لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قید وبند سمیت ہرقسم کی صعوبتوں کامقابلہ کیا کئی عشروں تک جیل میں رہنے کے باوجود باچاخان نیلسن منڈیلا نہیں بن سکے کیوں ؟ حالانکہ خود منڈیلا باچاخان کی فکر سے متاثر تھے اوراس کاانہوں نے عملی مظاہرہ بھی کیالیکن منڈیلا کاواسطہ یورپ کے نوآباد کاروں سے تھا جبکہ باچاخان اوردیگرقوم پرست رہنماؤں کامقابلہ یوپی ذہن اورپنجاب کے فوجی طاقت سے تھا پاکستان کے قیام کے بعد جعلی کلیم کے ذریعے بننے والے نودولیتے طبقے ،بنکوں کے ذریعے بننے والے سرمایہ دار ،انگریز حکمرانوں کی کاسہ لیسی کے طفیل بننے والے جاگیرداروں سے معاملہ کچھ اور تھا باچاخان تمام مصائب کے باوجود اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ انہوں نے کبھی مسلح جدوجہد کی بات نہیں کی لیکن پھر بھی غدار ٹھہرائے گئے اسلام آباد نے ان پرکبھی بھی بھروسہ نہیں کیااورقیام پاکستان کے ابتداء ہی سے یہ کوشش کی گئی کہ اصلی سیاست دانوں کومنظر عام سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہٹادیاجائے۔جی ایم سید جنہوں نے پاکستان کے حق میں سندھ اسمبلی میں قرار داد منظور کرائی ،شیخ مجیب الرحمن نے طالب علمی کے زمانے میں پاکستان کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد کی باچاخان جنہوں نے ’’عدم تشدد ‘‘ کے فلسفے کا پرچار کیا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے سوئی گیس دیکر پاکستان کی اقتصادیات کوعروج پرپہنچادیا ان تمام لیڈران کاکم وبیش انجام ایک ہی ہوا ۔باچاخان کوتمام عمر ذہنی تشدد کاسامناکرناپڑا ان کوان کے خاندان کونازیبا الفاظ سے یاد کیاجاتاتھا ایک مرتبہ ’’ نوائے وقت‘‘ میں نواب آف کالاباغ کے حوالے سے ایک بحث چلی جوباچاخان کی سیاست تک پہنچ گئی جس میں باچاخان جیسے بڑی شخصیت کے مضامین کوبھی سنسر کرکے شائع کیاگیا اس ساری بحث کوبعد ازاں ’’ولی خان اورقرار داد پاکستان کے نام سے کتابی شکل دی گئی ۔جب بلوچ اروپشتون اکابرین نے افغانستان کے معاملے پرکہاکہ جوسنگینیں آج کابل اورماسکو کی طرف ہیں کل ان کارخ اسلام آباد اورواشنگٹن کی جانب ہوگا تب ان باتوں کامذاق اڑایاگیاآج تمام باتیں ایک تلخ سچائی اورتکلیف دہ حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے موجودہیں ۔
باچاخان نے ایک طویل عمر پائی لیکن انہوں نے مالی منفعت کیلئے سیاست نہیں کی وہ ایک پوٹلی اٹھائے ایک شہر سے دوسرے شہر ایک دیہات سے دوسرے گاؤں تک سیاسی شعور پہنچانے کافریضہ سرانجام دیتے رہے لیکن وہ نیلسن منڈیلا نہیں بن سکے ۔اورنہ ہی نواب خیربخش مری جوآخر دم تک اپنے موقف پرقائم رہے لیکن قومی نجات ان کی قوموں کومل نہ سکی ۔آخر کیاوجوہات تھیں کہ ان کے قربانیاں ضائع گئیں ان کی سیاست ،نظریہ اورفلسفے متروک قراردئیے گئے لیکن انجام کیاہوا؟ آج پاکستان اورخطے کوبلکہ پوری دنیا کوقوم پرستوں سے ،بائیں بازو سے کوئی خطرہ نہیں پہلے بھی نہیں تھا لیکن مذہب کے نام پرجوجنونیت پھیلائی گئی تھی وہ پھنکارنے لگی ہے۔
تمام ترسیاسی ایجادات،کمونیکیشن کی ترقی ،نیٹ ،سوشل میڈیا کے باوجود لوگ قدامت پسندی کاشکار ہیں کیوں؟ اس کے بہت سارے
عوامل اوراسباب ہوسکتے ہیں لیکن اس کے بیج خود واشنگٹن اوراسلام آباد نے ڈالے مذہب کوسیاسی شکل دیکر وسائل کی جنگیں لڑی گئی جس کے خطے کوہی نہیں پوری دنیا کی سیاست میں جوہری تبدیلیاں پیداکیں ۔نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد پنجاب کے ’’اہل دانش‘‘ کوپہلی بار احساس ہوا کہ باچاخان اورولی خان جیسے سیاسی رہنماؤں نے کبھی مسلح جدوجہد کی بات نہیں کی انہوں نے کبھی اسلحہ نہیں اٹھایا توکیاوجہ ہے کہ ان کے ساتھ انتہائی غیرشائستہ اورغیرمہذبانہ سلوک روایارکھاگیا؟
آج پاکستان جن مسائل سے دوچار ہیں اس کاحل یقیناََعدم تشدد کے فلسفے میں پنہاں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تشدد جنم کیوں لیتا ہے؟ جب ریاست تشدد کرتی ہے توجواب میں تشدد ہی ابھر تاہے گو کہ اس کی اقسام اوررنگ مختلف ہوسکتے ہیں سندھی بہت پہلے اپنی ہی سرزمین پراقلیت بن گئے اب بلوچ قوم کی باری ہے گو کہ پشتونوں کویہ مسئلہ درپیش نہیں ہے لیکن مذہب کے نام پرجوتشدد پھیل رہاہے اس نے پشتونوں کوبے گھر کردیاہے ہجرتیں ہورہی ہیں گھروں کے گھر اورخاندان برباد ہورہے ہیں اورپشتون معاشرے کوایک انتہائی تنگ نظر اورقدامت پسند معاشرے کی جانب دھکیلاجارہاہے یہی کچھ بلوچ معاشرے کے ساتھ ہورہاہے لیکن اس سارے گندے کھیل میں قوم پرست بھی شامل ہیں پہلے یوپی کاذہن چلتاتھا اب بلوچ اورپشتون قوم پرستوں کاکندھا استعمال ہورہاہے ۔اگر عدم تشدد کافلسفہ آج درست ہے توباچاخان کے زمانے میں کیوں غلط تھا؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمار معاشروں کونقلی اورجعلی سیاسی رہنماؤں کے سپرد کردیاگیا۔جنہوں نے پورے معاشرے کی بنیادوں کوکھوکھلا کردیاہے آج منافقت کوانتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ڈپلومیسی کانام دیاگیاہے ۔ اور اس میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کی جاتی ۔ لیکن کیایہ گھٹن ،جھوٹ اوراستحصال حکمران طبقات اوران کے مدد گاروں کیلئے سکون کاباعث ہوسکتاہے ؟
آج سرکادرد بننے والے باچاخان ،ولی خان جی ایم سید اورنواب خیربخش مری نہیں رہے لیکن آج کامعاشرہ توکل کے معاشرے سے زیادہ تباہ کن ہے صرف دولت ،دولت اوراس کی ہوس سے کام نہیں چلے گا۔
میڈیا،پارلیمان،علم ،جا معات، ہرجگہ جعلی پن ہے جمہوریت صرف طاقت وروں کیلئے ہے پارلیمان میں پہنچنے والے بھی بے بسی کااظہار کررہے ہیں کبھی ان کی آنکھیں پرنم بھی ہوجاتی ہیں لیکن کسی کوبھی اس کی جان ومال کے تحفظ کایقین نہیں دلایاجاسکتا۔
یہ درست ہے کہ باچاخان سیاسی طورپر کامیاب نہیں رہے وہ پشتونوں کے نیلسن منڈیلا بھی نہیں بن سکے لیکن ان کی سیاسی شکست میں بھی ایک وقار تھا ان کی ہار میں بھی ایک کشش تھی لیکن اب معاشرے میں سوچنے والوں ،طالب علموں اورنوجوانوں کوان عذابوں سے نکلناہوگا توان کواپنی تاریخ پڑھنی ہوگی اپنے اکابرین کی جدوجہد سے واقفیت اورشناسائی حاصل کرناہوگی اپنے اکابرین کوصرف بت بنانے سے کام نہیں چلے گا ان کے افکار نظریات ،عمل کوآج کے دور کی کسوٹی پرپرکھناہوگا اوریہ دیکھناہوگا کہ انہوں نے کہاں کہاں ٹھوکرکھائی ۔اگر باچاخان سے کچھ سیکھنا ہے توان کوپڑھنا ہوگا ان کے اچھے کاموں،قربانیوں کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد کا ہر پہلو دیکھناہوگا یہ یقیناََ ایک مشکل کام ہے لیکن اس کے سوا کوئی اورطریقہ کم از کم میر سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کے ذریعے اس عظیم شخصیت کوخراج تحسین پیش کرسکیں۔