دنیا میں یا پھر خطے میں اگر شخصیات اور کردار و افکار کے حوالے سے بات ہو ااور اس میں خان عبدالغفار خان،، باچاخان،، کا تذکرہ نہ کیا جائے تو پھر وہ بات اور موضوع ہی ادھورا رہ جاتا ہے کیونکہ دنیا میں شخصیات کی جب بات ہوتی ہے تو وہاں مختلف شخصیات کے کردار افکار اور کارناموں کا ذکر ہوتا ہے اور انہیں تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے انہی شخصیات میں سے ایک خان عبدالغفار خان، باچاخان ہے جن کی جدوجہد اور عدم تشدد کے فلسفے سے نہ صرف یہاں ایشیاء بلکہ افریقہ اور یورپ بھی اس عظیم شخصیت کی جدوجہد و افکار کی معترف ہے خان عبدالغفار خان باچاخان جنہیں پشتون افغان قوم قدر و احترام سے فخر افغان کے نام سے یاد کرتی ہے اس عظیم ہستی کے بارے میں لکھنا ہم جیسے نوجوان لکھاریوں کیلئے بہت مشکل کام ہے مگر پھر بھی ان سے اظہار عقیدت کے طور پر کبھی کبھار فخر افغان باچاخان کے عدم تشدد کے فلسفے اور قربانیوں کے بارے میں لکھنے کی جسارت کر جاتے ہیں۔
باچاخان جس نے نہ صرف پشتون افغان قوم کو ایک نئی جہد اور فلسفہ دیا بلکہ انہوں نے پورے خطے کو بھی عدم تشدد فلسفے کا ایک ایسا درس دیا جس کے آج سب معترف ہیں ان کی زندگی فلسفے اور جدوجہدپر کتابیں لکھی جارہی ہیں ڈاکومنٹریز بنائی جا رہی ہیں بڑی اور معروف یونیورسٹیوں میں اساتذہ ان کے فلسفے پر پی ایچ ڈیز کر رہے ہیں۔
نیلسن منڈیلا جیسے لیڈر بھی باچاخان کی جدوجہد اور عدم تشدد فلسفے کے معترف تھے خان عبدالغفار خان باچاخان کو جو یہ مقام حاصل ہے اس کا اگر ہم جائزہ لیں تو ان کی اپنی قوم کیلئے جدوجہد منافقت سے خالی تھی ان کے دل میں پشتون قوم کیلئے ایک درد تھاوہ پشتونوں کے ساتھ ساتھ خطے اور پوری انسانیت کیلئے جنگ و تشدد سے پاک معاشرہ چاہتے تھے تاکہ سب لوگ جنگ و جدل کی بجائے پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضاء میں زندگی گزار سکیں وہ اپنی پوٹلی اٹھا کر پشتونوں کے گاوں گاوں میں جاتے اور پشتونوں کو یہ درس دیتے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کر دیں بندوق کی بجائے وہ خود کو تعلیم اور روشن سوچ سے آراستہ کر یں انہوں نے اپنی ساری زندگی جدوجہد میں گزاری، انگریزوں سمیت ہر حکمران نے انہیں غدار کہا انہیں جیلوں میں بند کیا ان کے خدائی خدمتگار پیروکاروں پر گولیاں چلائیں۔ مگر خان عبدالغفار خان،، باچاخان ،،نے ان تمام مصائب کو خاطر میں لائے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
باچاخان پر اسلام آباد اور ان کے کاسہ لیسوں کی جانب سے جو سنگین اعتراض اٹھایا جاتا ہے وہ ان کا کانگریس کی جانب میلان تھا لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب انگریز حکمرانوں نے ٹکر اور قصہ خوانی میں پشتونوں کے خون سے ہولی کھیلی تو باچاخان نے اس سلسلے میں پہلے مسلم لیگ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن مسلم لیگ نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کو نظرانداز کیاجسکے بعد باچاخان اور کانگریس کے درمیان رفاقت کا ایک سلسلہ قائم ہوا۔آج مسلم لیگی رہنماوں کے نظریات اور عمل نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں سے نکلنے کیلئے اسے باچاخان کے عدم تشدد فلسفے کی ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں پشتون قوم کی طرف اس وقت پشتون افغانستان کے علاوہ پاکستان میں کئی انتظامی یونٹوں میں تقسیم ہے جس کی وجہ سے پشتون قوم کی سیاست مختلف رجحانات اور نظریات رکھنے والی جماعتوں کے پاس ہے ایک جانب مذہب کے نام پر بننے والی سخت گیر جماعیتں ہیں تو دوسری جانب قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی اپنا وجود رکھتی ہے لیکن پشتون قوم کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے سیاسی رہنما خواہ وہ قدامت پسند ہوں یا قوم پرست وہ سب اپنے اپنے نظریات کو ہی برحق سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی کابل کبھی اسلام آباد کبھی واشنگٹن اور کبھی ریاض کی جانب دیکھتے رہتے ہیں ان سب کا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھی روابط اور تعلقات ہیں آج کے یہ سارے سیاسی رہنما باچاخان کے فلسفے سے کوسوں دور ہیں مذہب کے نام پر بننے والی جماعتیں تشدد میں اپنے نظریات ڈھونڈتی ہیں قوم پرست موقع پرستی اور مصلحت کوشی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں اس وقت اگر باچاخان کا فلسفہ اگر زندہ ہے تو اس کا تعلق عوام سے ہے اور عوام ہی باچاخان کو اپنا سب سے بڑا رہنما مانتے ہیں اوراب تو پشتون ولی اور باچاخان کا نام ایک ہی لفظ کے دو معنی بن چکے ہیں پشتون عوام اگر خود کو پہلے ?”پشتون یم”کہتے ہیں تو اب وہ دوسری سانس میں خود کو “باچاخانء یم”کہتے ہیں۔
چار عشروں سے جاری خاک اور خون کے کھیل نے پشتون عوام کو جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی نجات باچاخان کے فلسفے میں ہے لیکن اس فلسفے کو سیاسی اور عملی شکل دینے کیلئے ایک باچاخان کی ضرورت ہے جو کسی کا سیاسی ایجنٹ نہ ہو جو پارلیمان کی چند سیٹوں کی خاطر پوری قوم کا سودا نہ کریں جس کو سیاست اور تجارت میں تمیز آتی ہوں وہ جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کے بجائے اپنی مٹی کو اہمیت دیتا ہوں۔ اس حوالے سے اگر دیکھیں تو ہمیں شدید مایوسی ہوتی ہے ایک جانب باچاخان کا فلسفہ پھر سے مقبول ہو رہا ہے تو دوسری جانب ان جیسے بے لوث رہبروں کی کمی ہے اور اب تو رہبر و رہزن میں فرق کرنا بھی مشکل ہے۔
یہ درست ہے کہ باچاخان نے بندوق پر کتاب کو ترجیح دی تشدد کا جواب عدم تشدد سے دیا لیکن انہوں نے اپنے سیاسی مو?قف کو چند ٹکوں کی خاطر یا اپنے خاندان و عزیز و اقارب کو نوازنے کیلئے قربان نہیں کیا قومی نجات ان کا سیاسی ہدف تھا وہ ڈیورنڈ لائن کے ذریعے پشتونوں کی جعلی تقسیم کو نہیں مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تدفین کی وصیت کرتے وقت جلال آباد کا انتخاب کیا جس سے بے شک کچھ قوتیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن باچاخان نے جلال آباد میں آسودہ خاک ہو کر پشتونوں کو پیغام دیا کہ پشتون جہاں بھی بستے ہیں اور جو ان کی آباواجداد کی سرزمین ہے و ہی ان کا وطن ہے۔ڈیورنڈلائن کے ذریعے پشتونوں سے ان کے وطن افغانستان کو چھینا نہیں جا سکتا اور جب تک ڈیورنڈ لائن کے اس پار اور اس پار کے پشتون متحد نہیں ہوتے اس وقت تک وہ تشدد، خون و فسادات کا شکار رہیں گے۔
باچاخان کی سیاسی بصیرت کو دیکھا جائے تو کوئی بھی قوم ان کے نام سے نفرت نہیں کرتی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ باچاخان نے تعصب کو ایک طرف رکھ کر صرف پشتونوں کی بات نہیں کی بلکہ دیگر اقوام کے ساتھ ان کے سیاسی رہنماوں کے ذریعے قربت کا احساس اس نے پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ پشتون اس خطے میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ رہے اور برادرانہ تعلقات قائم رکھ سکیں اس میں اس کی بھلائی ہے۔
ایک طرف وہ نیو دہلی سے قریب رہے گاندھی اور نہرو خاندان کے ساتھ ان کا تعلق ایک فرد نہیں بلکہ ایک گھرانے جیسا تھا تو دوسری جانب کابل افغانستان ان کا مادر وطن تھا بلوچ، سندھی، بنگالی ان کے ہمدم اور رفیق تھے لیکن ان کے بعد پشتونوں میں اتنی بڑی قدآور شخصیت پیدا نہیں ہوسکی جو اپنے ملک سے باہر بھی ایک ریاستی رہنما کی حیثیت سے تعلق کا ذریعہ بن سکے باچاخان نے اپنے نظریے اور جدوجہد کے ذریعے جہاں ایک تاریخ چھوڑ رکھی ہے اے این پی کی شکل میں ان کی سیاسی جدوجہد کا سلسلہ قائم اور جاری ہے باچاخان اور ولی خان کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے پاس اسفندیارولی خان جیسا لیڈر ہے ان سے تمام تر اختلافات کے باوجود ہمیں ماننا ہو گاکہ پشتونوں کے سیاسی معاملات کے حوالے سے اسلام آباد ہوں یا واشنگٹن ہوں یا دہلی وکابل ہوں وہ اسفند یار ولی ہی سے بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت پشتون قوم کو جن چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے اس کا بوجھ اسفندیار ولی کو ہی اٹھانا ہو گا کیونکہ ان کے پاس باچاخان کی روایت موجود ہے جہاں یہ روایت ان کیلئے ایک اعزاز سے کم نہیں وہاں یہ روایت کانٹوں کا ایک تاج بھی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسفندیارولی باچاخان کی روایت ولی خان کی سیاست گزشتہ دور میں اے این پی کی حکومت اور اے این پی کے رہنماو?ں و کارکنوں کی قربانیوں کے بعد سیاسی طور پر کس قدر پختگی کا ثبوت دیتے ہیں خطے سمیت افغانستان اور پاکستان میں نئی سیاسی اور ملکی صف بندیاں ہو رہی ہے گوادر، چائنا کوریڈور نے ایک بہت بڑا اضطراب پیدا کیا ہیوہ ان سب سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں یہ سوال بہت اہم ہے۔
بلوچستان میں نیپ کے بعد اے این پی پہلی بار ایک متحرک قوت کے طور پر ابھر رہی ہے اگر اسفندیار ولی اور ان کے رفقاء نے پشتونوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تو یہ ایک سیاسی المیے سے کم نہیں ہو گا اگر وہ پشتون قوم کو ایک اچھے مستقبل کی جانب لے جانا چاہتے ہیں تو ان کو یقیناًباچاخان کی روایت پر عمل کرنا ہو گا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک رہبر کے طور پر ان کی زندگی باچاخان کی زندگی کا عملی نمونہ ہوں باچاخان سے لاکھ اختلاف رکھنے کے باوجود یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ وہ شخصیت اپنی زندگی میں انتہائی سادہ مزاج کا مالک تھا وہ نمود و نمائش سے کوسوں دور تھا وہ سچ کی تہذیب سے تعلق رکھتا تھا وہ جھوٹے نعروں کے ذریعے قوم کو بہلانے کے ہنر سے ناآشنا تھا حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص کہ جس کا لباس جس کا مزاج فقیروں جیسا تھا وہ گفتگو بھی عوام کی زبان میں کرتا تھا لیکن جب وہ اپنی پوٹلی اٹھائے نیودہلی کے ائیرپورٹ پراترتا ہوا نظر آتا ہے تو اس کے استقبال کیلئے صدر اور وزیراعظم موجود ہوتے ہیں جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ سیاست میں سادگی، سچ اور نظریہ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں لباس پروٹوکول سیاسی تعلقات آج کی سیاسی بیماریاں تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے لوگ بڑے نہیں بنتے باچاخان نے پوری زندگی عوامی طرز پر گزاری ان کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے سونے اور گفتگو کے انداز میں عوامی رنگ نمایاں تھا ان کے دائیں بائیں محافظوں کی فوج نظر نہیں آتی تھی ان کو کسی جلسے سے خطاب کیلئے پبلسٹی اور میڈیا کی ضرورت نہیں تھی وہ پیدل بھی سفر کرتے تھے۔
وہ ایک عام کسان کے گھر میں رہائش پذیر بھی ہوتے تھے ان کا کل سرمایہ ایک،، پوٹلی،، اور،، عدم تشدد،، کے فلسفے اور نظریے کے سوا کچھ بھی نہیں ان کے برعکس آج کے سیاستدان پروٹوکوں کے بغیر ایک منٹ نہیں رہ سکتے وہ مہنگے ترین بنگلوں میں رہتے ہیں مہنگے ہوٹلوں میں رہائش رکھتے ہیں ان کا کاروبار دبئی اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے ان سب کے باوجود ان کو عوام کی محبت نصیب نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے قابل ہے کہ وہ تاریخ میں زندہ رہ سکیں بلکہ ان کا مقدر تاریخ کے کوڑھے دان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔