|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2017

عام طور پرلوگ بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ وفاق کو ٹہراتے ہیں مگر میرے خیال میں اس کی پسماندگی میں بلوچستان کے اپنے رہنماؤں کی غفلت،چشم پوشی ،اقرباء پروری اور لالچ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے قوم پرست رہنماء جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو ان کا دل بلوچوں کے دکھ درد سے بھرا ہوتا ہے۔وہ وفاق پر الزامات لگانے سے نہیں تھکتے،آپ مثال دیکھئے موجودہ حکومت کرنے والے قوم پرستوں کا جس میں بلوچ اور پختون دونوں شامل ہیں۔ محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو کے حکومت میں آنے سے پہلے کی تقریر یں دیکھیں تو ان میں بلوچستان کے عوام کا درد،وفاق سے شکایات کے جذبات بھرے نظر آتے تھے۔ ان کی ماضی کے تقاریر سے ایسا لگتا تھا کہ اگر ان کے پاس بلوچستان کی حکومت آ گئی تو بلوچستان کے عوام کے دن پھر جائینگے اور یہ بھی باقی صوبوں کی طر ح ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کرے گا۔ اس حکومت سے قبل جتنی حکومتیں بنیں، انھیں بلوچستان کی اصل نمائندہ حکومت نہیں سمجھا گیا ،الیکشنوں میں قوم پرستوں کی بائیکاٹ کے حولے سے یا کسی اور حوالے سے ان پہ انگلی اٹھتی رہی ہے ۔مگر جب الیکشن کے نتیجے میں موجودہ حکومت بنی تو اس کو کسی حد تک بلوچستان کی نمائندہ حکومت سمجھا جانے لگا۔اس دفعہ جب قوم پرستوں کی حکومت بنی تو بلوچستان کے عوام کو صوبے میں ترقی ، خوشحالی اور خاص کر امن و امان کے حوالے ان سے کافی توقعات تھے،عوام میں تھوڑی سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید بلوچستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔میرے کانوں میں حاصل بزنجو کی وہ بات آج تک گونج رہی ہے کہ اگر ہم بلوچستان کے مسائل حل نہ کر سکے تو ہمیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔مگر افسوس گزشتہ حکمرانوں کی طرح یہ لوگ بھی جب اقتدار میں آئے تووہ بھی حکمرانی کے نشے میں چور ہو گئے،اور یہ لوگ بھی وہی کچھ کرنے لگے جو ہمارے پاکستانی حکمرانوں کی روایت رہی ہے، یعنی حکومت صرف کھانے پینے اور عیاشی کے لیئے ہے۔جتنا ہو سکے عوام کی دولت کو لوٹو، خود بھی کھاؤ اور دوستوں کو بھی کھلاؤ۔کتنے افسوس کی بات ہے بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل مشتاق رئیسانی کا کیس بھی اس حکومت کے دور میں سامنے آیا جس میں موجودہ حکومت چلانے والوں کے کردار کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بلوچستان کے امن وامان کے معاملات کی نگرانی بلوچستان سے زیادہ وفاقی حکومت کرتی آ رہی ہے،اگر بلوچستان کے امن و امان کے معاملات میں کچھ بہتری آئی ہے تو بلاشبہ صوبائی حکومت کا بھی حصہ ہے مگر اس کا زیادہ تر کریڈٹ وفاقی سکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔جب بلوچستان میں قوم پرستوں کی حکومت آئی تو عوام کو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ قوم پرست لوگ ان بلوچوں جو پہاڑوں میں حکومت کے خلاف مسلح جد وجہد کے ذریعے بر سر پیکار ہیں اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرینگے۔ بلوچوں اور حکومت کے درمیان جو مسائل یا غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں ،ان میں کمی لائینگے،وفاق اور بلوچوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے ۔ ان کی کوششوں سے درمیان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ دونوں اطراف ہمیں کچھ لچک نظر آیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ برف کچھ پگل رہی ہے مگریہ سب کچھ وقتی ثابت ہوا،یہ معا ملات آگے نہ بڑ سکے اورپھر یکایک معاملات بہت بری طرح بگڑ گئے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ بلوچستان کے قوم پرست حکمران ان معلاملات کو بہتر بنانے میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکے جس سے کہ بلوچستان میں محبت اور بھائی چارے میں مزید بہتری آتی۔ ہمارے حکمران وفاق سے تو ہمیشہ گلہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کو کچھ نہیں مل رہا ،مگر انھوں اپنے دستیاب وسائل کو بھی کبھی ایمانداری سے استعمال نہیں کیا ۔ابھی 25000کے لگ بھگ خالی آسامیوں کو جلد پر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے،یہ آسامیاں عرصہ دراز سے صوبائی حکومت کے مختلف محکموں میں خالی پڑیں تھیں۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں آسامیاں کوخالی رکھا گیا جبکہ دوسری طر ف ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں بیروز گار ہیں۔ اس بیروزگاری کی وجہ سے دربدر ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے ہتھے بھی چڑھ رہے ہیں۔ یہ نوکریاں پہلے ان بیروزگاروں کو کیوں نہیں دیا گیا،شاید کچھ نوجوان ذلیل ہونے سے بچ جاتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم کے نام نہاد دعویٰ دار قوم پرست حکمرانوں کو بلوچستان کے لوگوں کی بہتری سے کوئی غرض نہیں ہے اگر غر ض ہے تو اپنے مفادات سے۔ یہ بلوچستان کے حقوق کا نعرہ اپنی مفادات کے لیئے لگاتے ہیں۔ جب انھیں کچھ ذاتی مفاد ملے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اب حکمرانوں سے عرض ہے خدارا ان اسامیوں پر کرتے وقت میرٹ کو مد نظر رکھیں ۔ صرف آپس میں حکومتی وزیر اور مشیراپنے من پسند لوگوں ،وڈیروں، میر معتبروں میں نہ تقسیم کریں ،بلکہ کوشش کریں کہ حقداروں کو حق ملے۔