وفاق اور پنجاب کی تعصبانہ ذہنیت اگرچہ ہماری کی بڑی وجہ ہے لیکن ہم نے آج تک اپنی گریباں میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ ہم خود اپنی پسماندگی اور احساس محرومیوں کا کتنے فیصد ذمہ دار ہیں اور ہمارے اپنے صوبائی رہنماؤں ہمارے لیے کیا کیا ہے ۔جو کچھ ہمیں وفاق اور پنجاب سے مل رہا ہے کیا ہم نے ایمانداری اور مخلصی سے تمام فنڈز کو زیر استعمال لا کر اپنی پسماندگی کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔کیا ہم اس سر زمین اور اس پر بسنے والے غریب عوام کے ہمدرد ہیں یا ہم نے خود انہی غریبوں کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ وفاق ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک توویسے ہی کر رہا ہے لیکن ہمارے اپنوں نے ہمارا درد کتنا محسوس کیا ہے ۔ اپنی پسماندگی اور احساس محرومی کا قصہ کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں یہ ایک نا ختم ہونے والی کہانی ہے ۔اس ملک کے بننے سے لیکر آج تک ہم خود اپنے حقوق مانگنے والوں کو خود ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں اور ہمارے محترم اور کرپشن سے پاک سیاسی لیڈران اسمبلی میں جاکر اپنا پیٹ پالنے میں زیادہ مگن ہو جاتے ہیں ۔ہمارے ملک کے اس نظام سیاست نے عوام کو غریب سے غریب تر اور امیر کو امیر تربنا دیا ہے ۔عوام کو سر چھپانے کیلئے ایک چھت اور کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں اور حکمران اپنی عیاشیوں اور شاہانہ زندگی میں مگن ہیں ۔غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے انتہائی قابل اور محنتی نوجوانوں کو بے روزگاری اور غربت سے تنگ آتے ہی خود کشی کرتے دیکھا گیاہے ۔غریب ووٹر کے پاس اپنے بچوں کو ہسپتال لے جانے کیلئے ایک تانگہ تک میسر نہیں لیکن حکمران وی آئی پی گاڑیوں کی قطار میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔ہماری سب سے بڑی خامیوں میں عدم مساوات اور انصاف کا فقدان ہے ہمارے حکمرانوں کیلئے الگ قوانین موجود ہیں اور عوام کیلئے الگ ۔غریب کا بچہ سرکاری سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے اور حکمرانوں کے بچے دوسرے ممالک میں بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔یہی فرق اور عدم مساوات نے قوم کو تقسیم در تقسیم کا شکار بنا دیا ہے ۔اگر ملک میں ایک ایسا نظام تعلیم ہوتا کہ امیر اور غریب سمیت حکمرانوں کے بچے خود سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے تو شاید آج ہمارا نظام تعلیم بہت بہتر ہوتا ۔جس ملک میں انصاف اور مساوات ہے وہاں نظام حکومت بھی بہتر اور مضبوط ہے ۔سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں بادشاہ بھی ٹریفک جام میں کئی گھنٹے تک انتظار کرنے کو اپنی توہین نہیں سمجھتا لیکن ہمارے یہاں تو حکمرانوں کی آمد پر ٹریفک کی روانی تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور اردگرد رہنے والے مزدور طبقہ کو سانس لینے کی اجازت نہیں ملتی ۔ جب تک ہمارے حکمرانوں اور عوام کے درمیان اس فرق کو ختم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ہماری ترقی ایک خواب ہی رہے گا ۔ہمارا ایک ایم پی اے سرکاری خزانے کو لوٹ کر فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آنے والے وقت کے الیکشن کا پورا خرچہ سمیٹ کر اپنے پاس رکھتا ہے کہ بوقت ضرورت وہ عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنا سکے ۔ہمارے ہاں الیکشن اور سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جتنا سرمایہ آپ لگائیں گے اتنا ہی منافع کمائیں گے ۔ ایک بار اسمبلی میں جاکر پوری نسل کیلئے پیسے کما کر رکھنا ہمارے حکمرانوں کاشیوابن چکا ہے ۔ ۔جب تک ہمارے لیڈران اپنی عیاشیوں کو ختم نہیں کرتے اور سیاست کو اپنی مفاد کیلئے استعمال کرنے کا سوچ ختم نہیں کرتے تو ہماری زندگی میں بہتری کی کوئی امیدنہیں رکھی جاسکتی۔