کوئٹہ:وزیراعلیٰ وزراء اور میئر کے فیصلے مری اور رائے ونڈ میں کئے جاسکتے ہیں تو مردم شماری کے حوالے سے بھی مل بیٹھ اسکاحل نکالا جاسکتا ہے کیونکہ تمام جماعتیں حکومت میں ہونے کے ساتھ ساتھ وزراء بھی اکٹھے بیٹھے ہیں بلوچستان کے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے بلوچ بھی ہمارے بھائی ہیں وہ جہاں پر بھی ہیں انہیں مردم شماری کا حصہ بنایا جائے یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے ، ہم سیاسی لوگ ہیں اور جمہوری انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے پہاڑوں پر جانے والے نہیں اور نہ جائینگے اپنا کردار جمہوری جدوجہد کے ذریعے ادا کرتے رہیں گے کیونکہ حکمران مختلف حیلے بہانوں سے اپنے عیبوں پر پردہ ڈال کر مختلف ایشوز کھڑے کرکے عوام کو بے وقوف بناکر اگلے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اس طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار اے این پی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی پارٹی کی صوبائی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا پریس کانفرنس کے دوران اعلان کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پر بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی ،صوبائی جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ، جمال الدین رشتیا ، محمد ابراہیم کاسی ، سمیع آغا ، مابت کاکاسمیت پارٹی کے دیگر عہدیدار بھی موجود تھے اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ پارٹی کی صوبائی ورکن کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں صوبے کی مجموعی صورتحال عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات جس میں گیس ،بجلی ، پانی کی عدم فراہمی مردم شماری اور سی پیک کے حوالے سے کھل کر بحث کی گئی کیونکہ اے این پی نے ہمیشہ مردم شماری کے حوالے سے ٹھوس موقف اپنایا ہے کہ مردم شماری ہونی چاہئے یہ حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کو کس طرح شفافیت کے ذریعے مکمل کرتی ہے اور جماعتوں کے تحفظات اور خدشات کو کیسے دور کرنا ہے کیونکہ آئین پاکستان میں ہر دس سال بعد حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مردم شماری کے عمل کو یقینی بنائے تاکہ وسائل کی برابری کی بنیاد پر تقسیم کے مرحلے کو مکمل کیاجائے مارچ میں تقریباً19سال بعد مردم شماری ہونے جارہی ہے ،1998ء میں مردم شماری کے بعد 2008ء میں اور 2018ء میں مردم شماری ہونا تھی لیکن حکومت اس عمل کو مکمل نہیں کراسکے ہمارا واضح موقف ہے کہ مردم شماری کہ عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ بلوچستان اور کے پی کے کے عوام بھی خوشحالی اور ترقی کی مناذل طے کرسکے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن وامان کے عمل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو کس طرح مردم شماری سے دور رکھ کر اس عمل کو شفافیت کے ذریعے مکمل کرتی ہے انہوں نے کہا کہ سی پیک جوکہ پاکستان سمیت بلوچستان اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کا منصوبہ ہے ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ اس منصوبے میں ہمیں بھی ہمارا حصہ اور روزگار کے مواقع ملے تاکہ بلوچستان خوشحالی اور ترقی کی جانب بڑھ سکے لیکن حکمران کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس ترقی کی منصوبوں سے کے پی کے اور بلوچستان کے پشتونوں کو نکال دیا ہے جس پر ہم کو گہری تشویش ہے وزیراعلیٰ پنجاب اور سندھ اپنے سڑکوں اور نالیوں کے منصوبوں کو بھی سی پیک کا حصہ بنالیا ہے لیکن ہمارے صوبے کی شاہراہوں کو اس منصوبے سے دور رکھا جارہا ہے اورانہیں آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور ایشین ڈیوپلمنٹ بینک سے مکمل کیاجارہا ہے حالانکہ وزیراعظم پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس اور قیادت سمیت قوم سے ہر فورم پر وعدہ کیاتھا کہ مغربی روٹ پر جلد کام شروع ہوگا اب وہ اپنا وعدہ وفا کرے تاکہ ان منصوبوں میں حائل روکاوٹیں دور ہوسکے کیونکہ غلط پالیسیوں اور مسائل کی وجہ سے آج بلوچستان اس نہج پہنچ چکا ہے جہاں پر قوموں کو ان منصوبوں کے ثمرات سے محروم رکھا جارہاہے اور تمام منصوبے پنجاب میں بنائے جارہے ہیں بلوچستان اور کے پی کے دہشتگردی اور بدامنی کا شکار ہے بلوچستان کے گورنر ،وزیراعلیٰ اور گوادر کے نمائندوں کو بھی نظراندازکرکے احسن اقبال اور اسحاق ڈار معاہدے کررہے ہیں حالانکہ یہ منصوبہ بلوچستان کی سرزمین پر واقع گوادر کیلئے ہے لیکن ہمیں پوچھا نہیں جارہا ہمیں سانحہ 8اگست ،کھڈکوچہ ، شاہ نورانی ، پولیس ٹریننگ کالج کا بہت دکھ ہے جنہیں ہم سوسال میں بھی نہیں بھول سکتے آج بھی اغواء کی وارداتیں عروج پر ہے چمن میں سب سے زیادہ بدامنی ہے ریاست اور حکمران عوام کو تحفظ نہیں دے رہے ہیں اور صوبے کو قومی منصوبوں سے محروم رکھا جارہاہے اسی طرح نادرا بھی قومی شناختی دستاویزات جس میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول میں مختلف رکاوٹیں پیدا کرکے پشتون قوم کو اس حق سے محروم رکھا جارہاہے حالانکہ ملک بھر میں شناختی دستاویزات کیلئے ایک پالیسی ہونی چاہئے لیکن بلوچستان اور پشتونوں کیلئے الگ پالیسی اور دوسرے صوبوں کیلئے الگ پالیسی ہے انہوں نے کہا کہ ہم مردم شماری کے حق میں ہے اور ہم نے کبھی بھی سی پیک کی مخالفت نہیں کی بلکہ اپنا حق مانگتے ہیں مردم شماری کے حوالے سے 12فروری سے 20فروری تک صوبے کے تمام پشتون اضلاع میں آگاہی مہم شروع کرکے لوگوں میں شعور اجاگر کرینگے کہ وہ مردم شماری میں حصہ لے تاکہ انہیں انکے حقوق اور وسائل مل سکے اور24فروری کو قلعہ سیف اللہ میں سی پیک کے حوالے سے جلسہ منعقدکرینگے اور جو اعداد وشمار پیش کئے جارہے ہیں صحیح حقیقت عوام کے سامنے لانے کیلئے 5رکنی کمیٹی جس میں ملک ابراہیم کاسی ، مابت کاکا ،آدم بابر ، عبدالباری کاکڑ ،سردار فرید حقائق معلوم کرکے عوام کے سامنے پیش کرینگے اس موقع پر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے حصے کو دوسرے صوبوں میں منتقل کیاجارہاہے جس کی ہم اجازت نہیں دے سکتے ہم کسی بھی صوبے کی ترقی کی مخالف نہیں لیکن اپنے حقوق کسی اور جگہ پر استعمال نہیں ہونے دینگے اور نادرا نے بھی ملک گیر سطح پر ایک پالیسی اپنائی جائے ایک سوال کے جواب میں اصغراچکزئی نے کہا کہ قوم کو ایک سازش کے ذریعے کبھی مردم شماری میں رکاوٹ اور کبھی سی پیک کے مغربی روٹ اور کبھی نادرا کے ذریعے شرائط عائد کرکے منصوبوں کے ثمرات سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 1998ء میں ہونے والی مردم شماری میں بھی افغان مہاجرین اور غیر ملکی موجود تھے اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا