کوئٹہ: اسلام میں خواتین کو مرودوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں ہمیں بھی فرسودہ نظام کو ختم کرنا ہوگا بلوچستان کا مقابلہ کوئی صوبہ نہیں کرسکتا یہاں خواتین کو جو حقوق حاصل ہیں وہ کسی دوسرے صوبے میں نہیں صوبے کے خواتین میں بیداری آئی ہے جو قابل ستائش ہے کوئی این جی او اور حکومت بزور طاقت عوام میں شعور اجاگر نہیں کرسکتا جب تک وہ خود اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے نہ ہوں آج ملکی ایوانوں میں 36 فیصد خواتین کی نمائندگی ہے مگر افسوس آج تک خواتین کے حقوق کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی عورت کبھی کسی ظلم، جبر اور ذیادتی کا حصہ نہیں رہی ہے انصاف کی عدم رسائی اور عدم تحفظ کی وجہ سے عورت کے حقوق کی جدوجہد میں رکاوٹ ہیں عورت وفا کا پیکر ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں ان کی خدمات کی پذیرائی نہیں ہوتی ان خیالات کا اظہار بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر غنی خلجی، سماجی کارکن ثریا الہ الدین ، اشفاق مینگل، آصف ریکی، صابرہ اسلام بلوچ ،فاروق لہڑی ایڈووکیٹ، علی کاکڑ، جعفر خان خلجی نے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا مقررین کا کہناتھا کہ خواتین سے متعلق سو کیسز عدالت میں زیر سماعت ہیں جن میں اکثر کی تعداد طلاق اور خلہ کی ہے ،مختلف جیلوں میں قید خواتین میں اکثر نے گھریلو ناچاقی پر غیر قانونی اقدام اٹھایا گھریلو ناچاقیوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عورتوں کی کم عمری میں شادی ہے اب ایسے فرسودہ نظام کو ختم کرنا ہوگا جو عورت کو چاردیواری میں قید رکھنا چاہتے ہیں رابعہ بسری کا کرادر ہمارے لئے مشعل راہ ہے مادر وطن فاطمہ جناح نے ریاست کی تشکیل میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا محترمہ بے نظیر بھٹو نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں جام شہادت نوش کی ایسی ہزاروں خواتین ہیں جنہوں نے ملک میں انصاف آئین اور قانون کی بالادستی میں مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے ہم مرد اور عورت میں برابری کے خواہاں ہیں جس کی جدوجہد میں مختلف اوقات میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں لیکن ہماری جدوجہد جاری رئیگی خواتین کے حقوق کے لیے میدان میں آئیں ہیں واپس نہیں جائیں گے وکلاء میں بھی خواتین کو ان کے جائز حقوق بارے میں شعور وآگاہی اور معاشرے میں مساوی مقام دینے کے لیے اس بات کو فہم دینے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ان کے جائز حقوق کے فراہمی کے لیے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیں کہ وہ عورتوں کو ان کے مساوی مقام اور عزت دیں عورت فاؤنڈیشن کے صنفی مساوت کے پروگرام کے تحت وکلاء تنظیموں کی استعداد کاری کو بڑھانے اور خواتین سائلین کی سہولت کے لئے عدالتوں میں معلوماتی مراکز کا قیام کا منصوبہ متعارف کروایا گیاتھاجو اپنی پندرہ ماہ کی مدت کے بعد جنوری 2017 میں اختتام پذیر ہوا تقریب سے سماجی کارکن ثریاالہ دین نے خطاب کرتے ہوئے خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ایسے پروگرامز کو تسلس کے ساتھ برقرار رکھنا چائیے جن سے خواتین میں آگاہی سمیت انکے مسائل کا سدباب ہوسکے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر غنی خلجی نے سانحہ 8 اگست کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ہمارے لیے ناقابل فراموش ہے سانحہ میں ہمارے 56 ساتھی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر فاروق لہڑی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کے لیے ریاست کو کام کرنا چائیے تھا مگر افسوس کہ آج یہ کام ریاست کی بجائے این جی اوز سرانجام دے رہی ہیں یہ ملک اسلام کے نام پر بنا مگر اسلام نا م کی کوئی چیز نہیں ہے قانون وآئین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے تمام ادارے بالادست ادارے کے کنڑول میں ہیں ملک میں سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایا گیا ہے ہم ایسے معاشرے میں خواتین کے حقوق چاہتے ہیں جہاں مردوں کو حقوق حاصل نہیں ہے صوبے میں دہشتگردی کو بہانہ بناکر لوگوں کو کام کرنے نہیں دیا جارہامولوی حضرات خواتین کو گھروں میں بند کرنا چاہتے ہیں مگر وہ بھول چکے ہیں کہ اسلام میں تعلیم مرد اور خواتین دونوں پر لازم قرار دیا گیا ہے خوتین کے حقوق کے لیے ہر سطح پر اپنے خدمات انجام دینے کو تیار ہیں ، تقریب میں صوبے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اس موقع پر خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی