ٓٓآج سے ایک سو پندرہ سال پہلے یعنی سنہ انیسوں ایک کو برطانوی راج نے افغانستان اور اس کے متصل سرحدی علاقے کے قبائل کو زیراثر لانے کی فوجی ناکامی کے بعد انگریز سرکار کو ہندوستان کے محفوظ سرحدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اسی اثنا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے واسرائے لارڈ کرزن کی شاطرانہ ذہن ایسا قانونی شکنجہ اور جغرافیے کی نقشہ گری میں مصروف تھا جس میں محفوظ سرحد کے ساتھ ساتھ علاقے میں برطانوی مفادات کا تحفظ بھی ہوسکے یوں قبائلی خودمختاری کے نام پر فاٹا میں جہاں سرکار انگلشیہ کا منتخب کردہ گورنر ،پولیٹیکل ایجنٹ اور قبائلی ملک مختار کل کی حیثیت اختیار کرگئے اور اس ’’خودمختار‘‘ علاقے میں نافذ العمل ہونے والا قانون کا نام فرئنٹیر کرائم ریگولیشنز (ایف سی آر) ہوگیا جسے حرف عام میں کالا قانون بھی کہا جاتاہے کیونکہ اس قانون کی رو سے پولیٹکل ایجنٹ کسی بھی فرد کو کوئی وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر تین سال تک قید میں ڈال سکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی قبیلے کا ایک فرد کسی علاقے میں جرم کا ارتقاب کرے تو اجتماعی ذمہ داری کے تحت علاقے والوں کے ساتھ ساتھ پورے قبیلے کو مجرم سمجھتے ہوئے سزا دی جاتی ہے اس کی تازہ ترین مثال محترم سلیم صافی صاحب کے بقول گزشتہ سال ایک علاقے میں ہونے والے جرم کی سزا میں اس علاقے کے ایک قبیلے کے سو دکانوں پر مشتمل مارکیٹ کو مسمار کردیا گیا۔ فاٹا کے بدنصیب باسی اس قانون کی ستم کاریوں کا ایک صدی سے زائد عرصے سے سامنا کر رہے ہیں اور آخر کار زخم زخم قبائل کے کئی دہائیوں پر مشتمل پر امن جدوجہد نے رنگ لاتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیراعظم کے زیر صدارت کابینہ اجلاس میں فاٹا اصلاحات کے منظوری کے بعد نو آبادیاتی دور کا معتصبانہ سوچ کی بنیاد پر قائم ’’ایف سی آر‘‘ کا قانون تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے کے لیے آخری سانسیں گننے لگا ہے جو کہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ یہ طالب علم ناقدانہ نہ ذہن رکھتا ہے اور نہ ہی وطن عزیز پاکستان میں ناقدانہ مزاج کا حصہ ہے بلکہ تاریکی اور مایوسی کی بجائے روشنی اور امید کی بات کرنے کو اولیت دیتا ہے اس تحریر کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اگر ایف سی آر صرف فاٹا میں ہوتا یا ایف سی آر صرف ایک قانون کا نام ہوتا کیونکہ لارڈکرزن کے تخلیق کردہ ایف سی آر کے قانون کے آئینے میں ہماری انفرادی اور اجتماعی سوچ بھی پورے ایف سی آرانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ دیکھائی دیتاہے شاید اس امتیازی قانون سے کئی دہائیوں تک پالا پڑنے سے اب یہ ہمارے تحت الشعور یا سرشت کا حصہ بن چکا ہے جو بیشتر اوقات مختلف شکلوں میں پھنکارتے سانپ کی طرح پھن پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے جسے ختم کرنا تو کیا قابو کرنا بھی کار محال ہے مثلاً اگر کسی قبیلے یا قوم سے تعلق رکھنے والے چند افراد کسی تخریب کاری میں ملوث پائیں جائیں تو ان کے عزائم اور نظریہ کا سر چشمہ تلاش کرنے کی بجائے ان کی لسانی شناخت کرکے پوری کمیونٹی کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے جوکہ ایف سی آرانہ سوچ کا شاخسانہ ہے حالانکہ وہ لوگ اپنے قوم کے بھی ہمدرد نہیں ہوتے ۔ اس بات کی وضاحت کے لیے اگر گزشتہ ایک عشرہ کے بد امنی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو کراچی سے فاٹا تک اور گلگت سے گوادر تک کس قبیلے ،کمیونٹی، یا مکتبہء فکر نے اس عفریت کے ہاتھوں زخم نہیں کھائے۔،سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے ’’ہنر‘‘کو نقطہ کمال تک پہنچانے میں یقیناًہم سب سے زیادہ وقت اور توانائی صرف کرنے والی قوم ہے جس کا تازہ ترین نظارہ گزشتہ مہینے صدر ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان ممالک بالخصوص شامی پناہ گزینوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانے کے بعد کیا جا سکتا ہے جس میں پورے امریکہ کے ساتھ ساتھ (حالانکہ اس فیصلے کی بھرپور مخالفت خود امریکہ میں عدالتی مزاحمت اور شدید عوامی احتجاج کی صورت سامنے آیا)پورے مغرب کو دھتکارنے کے بعد سب کچھ معمول کے ڈگر پر چلنے لگتا ہے تاقتیکہ ایک اور واقعہ ہوجائے لیکن دشنام طرازی کے اس گرد آلود موسم میں یہ خیال ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتا ہے کہ آسٹر یلیا،کینیڈا،اور جرمنی میں بسنے والے شامی پناہ گزینوں کے کتنے فیصدنے سعودی عرب، ایران، قطر، اور کویت جیسے مسلمان ممالک میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ساتھ میں یہ سوال بھی نظروں سے اوجھل رہتا ہے کہ کتنے مسلمان ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور یہ تلخ تجربہ بھی دھیان کی سرحدوں سے کہیں دور بھٹکتا رہتا ہے کہ مسلمان ممالک میں رہنے والے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی پایہ لغزش کی وجہ سے پورے اقلیتی برادری کو قدم قدم پہ صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح اگر ملک کے اندر دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی چپقلش کا مشاہدہ کیا جائے تو یہاں بھی ایف سی آر کا فرنگی شاہانہ سوچ پورے شاہی کروفر کے ساتھ جلوہ افروز ہے یقیناًاختلاف رائے مہذب اور زندہ معاشروں کا شیوہ ہے اگر استدلال و منطق اور شائستگی کے قرینوں سے آشنا ہے لیکن شاید ہمارے جیسے معاشرے کا المیہ اعتدال و میانہ روی کا ناپید ہونا ہے اگر بائیں بازو کے چند پرچارک انتہاء پر رہتے ہوئے بے لچک موقف اپناتے ہیں تو جواب میں تمام جدت پسندوں کو عجیب و غریب القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بائیں کے نظریات کے چند داعی سخت اختلافی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ یہاں بھی ردعمل میں تمام قدامت پسندوں کے ساتھ ساتھ ان سے متعلق پورے مکتبہء فکر کو طنزوتشنیع کا نشانہ بنا یا جاتا ہے اگر مذکورہ بالا دونوں ردعمل کو حقیقت پسندانہ عینک سے دیکھا جائے تو بلا کسی ججک ہر دو ردعمل کو ایف سی آرانہ طرز فکر کا نتیجہ ماننا پڑتا ہے اور مذہبی اصطلاح میں ’’غلو‘‘ کہلاتا ہے یعنی حد سے تجاوز کرنا
اب سوال یہ ہے کہ انیسویں صدی کا ایف سی آرانہ طرز فکر و عمل کیوں اکیسویں صدی میں بھی ہمارے لاشعور کے ساتھ کالے کمبل کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک فرد کے مکروہ عمل کو پوری قوم،کمیونٹی ،اور مکتبہء فکر کے ساتھ جوڑ کر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں آخر کیوں میانہ روی ،معتدل مزاجی ،سنجیدگی اور حقیقت پسندانہ اپروچ کی بجائے سطحی جذباتیت ہمارا وطیرہ بنتا جا رہا ہے؟