کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجید خان اچکزئی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ا س وقت کوئٹہ شہر کی آبادی بیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود پشتون آبادسیٹلائٹ ٹاؤن سرکی قلعہ غوث آباد و دیگر ملحقہ آبادی کے لئے تاحال کسی قابل ذکر تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا جبکہ پرانی سبزی منڈی سرکی روڈ کے دکانداروں اور ٹرانسپوٹروں کو ہزار گنجی میں متبادل جگہ فراہم کرنے سے سبزی منڈی خالی پڑی ہوئی ہے اور قبضہ مافیا اس اراضی کو قبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں قرارداد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ سبزی منڈی کی اراضی جو کیوڈی اے کی ملکیت ہے کو محکمہ تعلیم کے حوالے کرکے ایجوکیشن ویلی کے نام سے منسوک کرکے ایک تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لانے کے ساتھ اتھ اس کی تعمیر کے لئے فنڈز کا اجراء بھی کرے تاکہ اتنی بڑی آبادی کے لئے تعلیمی ادارے کا قیام ممکن ہوسکے۔انہوں نے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کررکھا ہے مگر دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ کوئٹہ شہر میں طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی اداروں کا فقدان ہے سیٹلائٹ ٹاؤن پشتون آباد سریاب غوث آباد اور گردونواح میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں پرانی سبزی منڈی میں آٹھ دس ایکڑ زمین خالی پڑی ہے وہاں پر ایجوکیشن ویلی بنائی جائے ۔صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کیوڈی اے کے پاس پہلے سے وسائل کی کمی ہے جبکہ جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو اڈے سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر چاندنی چوک پر گرلز کالج کی تعمیر جاری ہے کیوڈی اے کی اپنی ایک گورننگ باڈی ہے جس میں اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں اس معاملے پر ہم وہاں غور کریں گے اس لئے محرک اپنی قرار داد پر زور نہ دیں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم نوعیت کی قرار داد ہے جو منظور ہوجانی چاہئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ جیسا کہ فاضل رکن نے خدشہ ظاہر کیا ہے اگر یہ زمین یونہی پڑی رہی تو اس پر قبضے کا خدشہ ہے ۔ سردار اسلم بزنجو نے بھی قرار داد کو اہمیت کا حامل قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال محرک اس قرار داد پر زور نہ دیں اس حوالے سے بیٹھ کر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔سردار عبدالرحمان کھیتران نے بھی قرا ر داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر میں میٹروپولیٹن کارپوریشن اور دیگر محکموں کی اراضیات پر قبضے ہورہے ہیں قبضہ مافیا بہت بااثر ہے اس مافیا نے کوئٹہ شہر میں بہت ساری زمینوں پر قبضہ کرکے وہاں پلازے بنا لئے ہیں اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو سروے کرکے اپنی سفارشات دے اور پھر ان سفارشات کی روشنی میں ان زمینوں کو واپس حاصل کیا جائے اس طرح بہت سے مسائل حل ہوں گے۔وزیر تعلیم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی رہنماء عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ محرک نے محکمہ تعلیم سے متعلق جو باتیں کہی ہیں میں ان کی تردید کرتا ہوں ہم تعلیم کے شعبے میں بہت بہتری لائے ہیں اور مزید بہتری بھی لائی جارہی ہے تاہم اس سلسلے میں تمام طبقات کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے چونکہ خود پی اینڈ ڈی کے وزیر نے بھی قرار داد کی مخالفت کی ہے اس لئے محرک اپنی قرار داد پر زور نہ دیں تاہم عبدالمجیدخان اچکزئی نے قرار داد واپس نہیں لی جس کے بعد سپیکر نے ایوان میں رائے شماری کرائی جس کے مطابق 12اراکین نے قرار داد کے حق اور17اراکین نے مخالفت میں ووٹ دیا جس کے بعد سپیکر نے قرار دادنامنظورکئے جانے کی رولنگ دی ۔کالج سطح پر جرنلزم کا مضمون نصاب میں شامل کرنے سے متعلق مشترکہ قرار داد حسن بانو رخشانی نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے دیگر صوبوں میں یونیورسٹیوں کے علاوہ کالجز کی سطح پر بھی جرنلزم کا مضمون پڑھایا جاتا ہے جبکہ بلوچستان میں کالجز کی سطح پر یہ مضمون نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء وطالبات اس سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ جرنلزم کا مضمون دور حاضر کی اہم ضرورت ہے اس لئے صوبائی حکومت صوبے میں کالجز کی سطح پر جرنلزم کے مضمون کونصاب میں شامل کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے طلباء و طالبات دور حاضر کی اس تعلیم سے مستفید ہوسکیں اور مستقبل میں انہیں اس اہم شعبے میں روزگار کے مواقع میسر آسکیں ۔انہوں نے کہا کہ جرنلزم کا مضمون کالج سطح پر رائج کرنے سے بہت زیادہ بہتری آئے گی اور صحافت کو فروغ حاصل ہوگا۔ مجلس وحد ت المسلمین کے آغا رضا نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں اس جانب بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کالج سطح پر مضمون رائج ہونا چاہئے ہم اس حوالے سے باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں ڈاکٹر شمع اسحاق نے بھی قرار داد کی حمایت کی اور کہا کہ کالج کی سطح پر جرنلزم کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرنے کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ یہ قرار داد اہمیت کی حامل ہے جرنلزم کو بطور مضمون کالج میں پڑھایا جانا چاہئے جبکہ اب تک ہمارے ہاں یہ صرف یونیورسٹی کی سطح پر پڑھا یاجاتا ہے اس لئے ایوان کو چاہئے کہ یہ قرار داد منظور کرلے بعدازاں ایوان نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کرلی جبکہ سپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد کی منظوری کے ساتھ ساتھ اس پر عملدرآمد کرنے پر بھی توجہ دی جائے ۔جے یوآئی کے رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے ایوان میں مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے بلوچستان کے633کمیونٹی سکولوں میں تقریباً783اساتذہ 2007ء سے عارضی طو رپر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کمیونٹی سکولوں میں تقریباً 30ہزار کے قریب طلباء و طالبات علم کی روشنی سے فیضیاب ہورہے ہیں ان اساتذہ کو تنخواہیں بھی بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن ادا کررہا ہے اور مذکورہ اساتذہ انتہائی قلیل تنخواہ میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اس لئے صوبائی حکومت ان اساتذہ کی دس سالہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کمیونٹی سکولوں کو سرکاری حیثیت دے کر ان اساتذہ کی مستقل تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو حکومت خود چلائے اگر ایسا ممکن نہیں تو اس کے لئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اس کے تحت چلنے والے سکول نہ صرف چلیں بلکہ طلبہ تعلیم بھی حاصل کرسکیں ۔نصراللہ زیرئے نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد میں اساتذہ کو مستقل کئے جانے کا مطالبہ ہے جبکہ سردار کھیتران فاؤنڈیشن کی بات کررہے ہیں یہ دونوں الگ چیزیں ہیں ثمینہ خان نے کہا کہ قرار داد میں یہ تفصیل نہیں کہ یہ سکول کہاں کہاں ہیں اس کی وضاحت کی جائے اور سکولوں کا معیار بہتر بنایا جائے اکثر نجی سکولوں میں فزیکل ایکسرسائز کا بھی اہتما م نہیں ہوتا۔جمعیت کی شاہدہ رؤف نے کہا کہ پرائیویٹ سکولوں میں نہ صرف فزیکل ایکسرسائز کی سہولت نہیں بلکہ اکثر سکول معیار پر بھی پورا نہیں اترتے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا ایکٹ 2007ء میں بنا جس میں اس کے اغراض و مقاصد شامل ہیں یہ سکول ان بچوں کے لئے ہیں جو سکول جانے کی عمر سے بڑے ہوچکے ہیں یا جہاں دور دور تک سکول نہیں ہیں شروع میں ان اساتذہ کی تنخواہیں پانچ ہزار روپے تھی جو ہم نے بڑھا کر چودہ ہزار روپے ماہانہ کردی ہے تنخواہوں کے لئے61کروڑ روپے کی سیڈ منی رکھی گئی ہے جس سے یہ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان اساتذہ کو ڈائریکٹ محکمہ تعلیم میں نہیں لیا جاسکتا ٹیسٹنگ سروس موجود ہے اس کے ذریعے میرٹ پر کامیاب ہو کر اساتذہ آسکتے ہیں ہم نے فاؤنڈیشن کو اس کے ایکٹ کے مطابق چلانا ہے ۔اس موقع پر انہوں نے محرک سے قرار داد پر زور نہ دینے کی درخواست کی بعدازاں سپیکر نے ایوان کی منظوری سے قرار داد واپس لیئے جانے کی رولنگ دی ۔جے یوآئی کی رکن شاہدہ رؤف نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کی رو سے اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کے تصور کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ قرآن مجید ہی تمام علوم کا منبع اور ماخذ ہے اس لئے نئی نسل کا اخلاقی و دیگر علوم میں رہنمائی و دسترس حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔اس لئے یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ اسلام کے تصور کو عملی جامہ پہنانے اور نئی نسل کو اخلاقی و دیگر علوم میں رہنمائی و دسترس حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی تعلیم کو اول تاپنجم ناظرہ،کلاس ہشتم تا دہم مکی سورتیں بمعہ ترجمہ اور انٹر میڈیٹ سال او ل و دوئم کے لئے مدنی سورتیں بمعہ ترجمہ نصاب کا حصہ بنانے کو یقینی بنائے۔صوبائی وزیر ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ قرار داد اہم ہے اس کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے قرآن مجید ترجمے ساتھ پڑھنا ہم سب کے لئے ضروری ہے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر پہلی جماعت سے پڑھائی جاتی ہے قرار داد میں جن جن باتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے ان تمام پر پہلے ہی عملدرآمد ہورہا ہے اگر اس کے علاوہ قرار داد کی محرک مزید کچھ شامل کرانا چاہتی ہیں تو وہ اس کے سلسلے میں سپیکر چیمبر میں بیٹھ کر بات کریں مسلم لیگ(ن) کی ثمینہ خان نے کہا کہ جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لازم ہے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو یکساں نظام کے تحت چلایا جائے جمعیت کی حسن بانو رخشانی نے کہا کہ ہمارا مقصد طلبہ کو قرآن کی تعلیم دینا ہے اور ہم نے بچوں کو قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھانے کی بات کی ہے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں اسلامیات لازمی مضمون کے طو رپر پڑھایا جاتا ہے جبکہ ہمارے بچے مساجد میں بھی قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اے این پی کے انجینئرزمرک خان نے کہا کہ اگرچہ بچوں کو سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی ہے مگر قرآن کریم ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھایا جاتا اس کے لئے قانون سازی کرکے تمام تعلیمی اداروں میں قرآن کریم ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا اہتمام کیا جائے مسلم لیگ کے شیخ جعفرخان نے کہا کہ قرار داد بہتر ہے محکمہ تعلیم اس پر غور کرے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ صوبے میں دس ہزار پرائمری سکول ہیں اور فوری طو رپر وہاں قرآن کریم اور ناظرہ پڑھانے کے لئے دس ہزار اساتذہ کی تعیناتی ہمارے لئے ممکن نہیں پانچ ہزار سکول ایسے ہیں جو ایک کمرہ اور ایک استاد پر مشتمل ہیں اگر ایسی صورتحال میں ہم ایک قرار داد منظور کرکے خود اس پر عمل نہ کریں تو پھر کل ہم وفاق سے قرار دادوں کے حوالے سے کیا گلہ کریں گے اس سلسلے میں محرک قرار داد پر زور نہ دیں بلکہ اس کے لئے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی بہتر طریقہ تلاش کریں گے اس موقع پر قرار داد کی محرکہ نے اپنی قرار داد پر زور نہیں دیا جس پر سپیکر نے ایوان کی منظوری کے بعد قرار داد واپس کئے جانے کی رولنگ دی ۔