|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2017

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے باہر ٹنڈو محمد خان روڈ پر پھلیلی کینال کے کنارے پر کچھ کچے گھر آباد ہیں، ان گھروں میں سے ایک گھر میں عالمی ایوارڈ یافتہ ویرو کولھی بھی رہتی ہے، جس نے گھر کا ایک کمرہ اسکول کے لیے مختص کردیا ہے تاکہ اس غریب بستی کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔زمینداروں کی نجی جیلوں میں قید کسانوں کو رہا کرانے کی کوششوں پر ویرو کولھی کو غلامی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم نے عالمی ایورڈ سے نوازا تھا اس کے بعد انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی درجن انعامات مل چکے ہیں۔گزشتہ عام انتخابات میں ویرو کولھی نے بھی صوبائی حلقے پی ایس 50 سے حصہ لیا ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے امیدوار شرجیل انعام میمن سے تھا۔ ویرو کو چار ہزار کے قریب ووٹ ملے اور وہ ہار گئیں، لیکن زمینداروں سے لڑ جھگڑنے والی اس خاتون کو اب سیاست دانوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ انتخابات کے بعد پولیس ان کے گھر پر چھاپہ مارتی رہی اور ان کے گھر کے مردوں کو شراب بنانے کے مقدمات میں گرفتار کرتی رہی، یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا۔ویرو کولھی کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ بھی بات دلچسپ ہے کہ شرجیل انعام میمن کے بیرون ملک جانے کے بعد ان پر مزید کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا اور عدالت نے ان پر پہلے سے دائر تمام مقدمات سے بھی بری کردیا۔ شرجیل انعام کی واپسی یقیناًویرو کولھی کے لیے باعث پریشانی ہوگی کیونکہ وہ پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی حصہ لیں گی۔مبینہ کرپشن کیسز سے ضمانت کے بعد شرجیل جب اپنے حلقے میں جلسے کے لیے پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے ان کے دوست امداد پتافی ٹنڈو الہیار سے اپنے حلقے کے لوگوں کو لیکر پہنچے تھے۔ امداد پتافی کو کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ فنکشنل کی رکن نصرت سحر عباسی کے ساتھ سندھ اسمبلی میں بدتمیزی پر معافی مانگنی پڑی تھی۔ دوران اجلاس وہ توہین آمیز الفاط کہتے رہے اور اجلاس میں شریک وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو سے لیکر اجلاس کی صدارت کرنے والی شہلا رضا بھی اس سے لطف اندوز ہوتی رہیں بالآخر میڈیا نے یہ سب کچھ رپورٹ کیا اور دوسرے دن بختاور بھٹو اور بلاول بھٹو نے نوٹس لیا اور امداد پتافی کو معذرت کرنا پڑی پارٹی نے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے نہ کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کوئی پالیسی واضح کی۔ حال ہی میں جام صادق دور حکومت میں وینا حیات کیس میں خود پیپلز پارٹی کی جانب سے ملوث قرار دیئے گئے سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ مروت نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی لیکن بختاور بھٹو نے اس کی مخالفت کی جس کے بعد یہ معاملہ رک گیا لیکن آصف علی زرداری نے کچھ روز قبل واضح کیا کہ عرفان مروت کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چند روز قبل جب ڈاکٹر عاصم حسین جب ضمانت پر رہا ہوئے تو عرفان اللہ مروت بھی گلدستہ لیکر وہاں پہنچ گئے تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ والد نے پارٹی کے نظریات اور بیٹی کے خیال و سوچ کو مسترد کرکے اپنی سوچ مسلط رکھی ہے۔ عرفان اللہ مروت کا معاملہ جب میڈیا میں موجود تھا تو ان دنوں بلوچستان کی جماعت بی این پی عوامی کے رہنما اسرار اللہ زہری نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی، جس کے بعد یہ بیان سامنے آیا کہ ہم خیال قوتوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ معلوم نہیں لوگوں کو یاد ہے یا نہیں لیکن یہ چند سال پہلے ہی کی بات ہے جب سینیٹ میں اسرار اللہ زہری نے بیان دیا تھا کہ خواتین کو زندہ درگور کرنا بلوچ قبائل کی روایت ہے۔ حالانکہ باشعور بلوچوں نے ان کے اس موقف کو مسترد کیا تھا۔ ان کا بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب غیرت کے نام پر دو لڑکیوں سمیت 4 خواتین کو زندہ دفن کیا گیا تھا۔ ان کے اس بیان کو تمام ہی باشعور حلقوں انسانی حقوق میں یقین رکھنے والوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح چند سال قبل کشمور میں پانچ کم سن لڑکیوں کو جرگے میں بطور ونی دینے کا اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نوٹس لیا تھا، جس کے بعد ایم این اے میر ہزار خان بجارانی پر ایف آئی آر درج ہوئی اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری ہوا تھا، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک عام مشق ہے جو ہوتی رہی ہے۔سندھ میں خواتین پر تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات یقیناًروزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، آج تک وہ صبح نہیں آئی جب اخبار میں خواتین کے قتل، خودکشی یا تشدد کا کوئی واقعہ رپورٹ نہ ہوتا ہو، لیکن یہ عام لوگ ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں سیاسی شخصیات اور اراکین اسمبلی بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بدقسمتی سے یہ سب کچھ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہی ہو رہا ہے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی جو بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جدوجہد آمریت سے ٹکر لینے کی کہانیاں سناتی تھی، جس کی حکومتوں میں یہ توقع کی جاتی تھی کہ خواتین کی بہتری کے لیے قانون سازی ہوگی، روزگار ملے گا گھر کے اندر اور باہر ماحول سازگار ہوگا ۔ اب اسی پارٹی کی ’’نظریہ ضرورت’’ نے اس کے بنیادوں کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں 1976 میں قانون سازی کے لیے خواتین حقوق کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے شادی، طلاق، جائیداد کے علاوہ ایک تجویز یہ بھی دی تھی کہ بلدیاتی اداروں، صوبائی اور قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی بڑھائی جائے اور تمام جماعتوں کو قانونی طور پر پابند بنایا جائے کہ وہ عام نشستوں پر دس فیصد خواتین امیدوار نامزد کریں۔ لیکن بھٹو کو یہ سب کچھ کرنے کی مہلت نہیں مل سکی تھی۔بینظیر بھٹو جب حکومت میں آئیں تو انہوں نے وومین پولیس ، وومن بینک کے علاوہ ایل ایچ وی پروگرام متعارف کرایا جس سے خواتین کے لیے روزگار کی راہیں کھلیں ۔اس کے علاوہ خواتین ججز تعینات کی گئیں جس کے بعد ہر ادارے میں خواتین آگے آئیں۔ لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی نے کیا کیا؟ شہید بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام جس کا فائدہ بھی صرف یہ ہی ہوا کہ خواتین کی بڑی تعدادکے شناختی کارڈ بن گئے اور ماہانہ ہزار پندرہ سو ملنے لگے اس سرمایہ کاری کو ووٹ میں تبدیل کیا گیا۔ یعنی بھلائی سے زیادہ سیاسی مفاد تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جب بلاول بھٹو نے سنبھالی تو نوجوان قیادت اور نوجوان کارکن کے ڈھول بجائے گئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کا مطلب کیا صرف مرد ہی ہوتے ہیں، خواتین کو کہیں سیاسی اسپیس نہیں دیا گیا اور نہ ہی موجودہ وقت پیپلز پارٹی خواتین کے لیے ایک پرکشش جماعت نظر آتی ہے۔شگفتہ جمانی، فرحین مغل، شہلا رضا، کلثوم چانڈیو، غزالا سیال کی جنریشن کے بعد کتنی خواتین پیپلز پارٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ نذہت پٹھان اور راحیلہ ٹوانہ جیسی جیالیاں پارٹی چھوڑ گئیں اور موجودہ وقت جو خواتین پارٹی میں نظر آتی ہیں وہ والد، والدہ، بھائی یاشوہر کے کوٹے پر اسمبلی میں موجود ہیں جن میں سے اکثر کا قانون سازی یا اسمبلی کی کارروائی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔پاکستان کے انتخابات اور اسمبلیوں کی نگرانی کرنے والے غیر سرکاری ادارے فافین کی رپورٹ کے مطابق جون 2013 سے لیکر مارچ 2017 تک سندھ اسمبلی کے 30 سیشن میں 50 فیصد ایجنڈہ خواتین نے متعارف کرایا تھا ، یہ حصیداری، سوالات، قرار داد، تحریک استحاق اور پرائیوٹ بلز کی صورت میں تھی۔بقول مہتاب اکبر راشدی کہ عورت ممبران کی پرفارمنس قابل تحسین ہے ورنہ یہاں تو جدی پشتی اراکین بھی موجود ہیں جو ایک لفظ کہہ بغیر اپنی مدت پوری کرکے ایوان سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ٹی وی اسکرین سے گھر بیٹھے معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی میں یا تو ایم کیو ایم کے اراکین بولتے ہیں یا پھر نصرت سحر عباسی جو سب سے زیادہ سوالات کرتی ہے اور تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اب ایم کیوایم سے نمٹنا دشوار ہے اس لیے سارا نزلہ نصرت سحر عباسی پر آکر گرتا ہے۔ عام اندازہ یہ ہے کہ خواتین آبادی کا نصف حصہ ہیں لیکن اس حساب سے سندھ اسمبلی میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یعنی 167 اراکین میں سے صرف 30 خواتین ہیں۔ان دنوں ملک میں آدم شماری کا سلسلہ جاری ہے، جس کی بنیاد پر اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوگا یقیناًاس شرح سے اسمبلی میں خواتین کے لیے مختص نشستیں بھی بڑھیں گی اور مزید خواتین اسمبلیوں تک پہنچیں گیں۔ آنے والے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے جو سفارشات مرتب کی ہیں، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام جماعتیں عام نشستوں پر 5 فیصد خواتین امیدوار کھڑا کریں گی، جہاں خواتین کے ووٹ 10 فیصد سے کم پڑیں گے وہاں انتخابات دوبارہ کرائے جائیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خود کو مہذب قوم دکھانے کے لیے سیاسی جماعتیں خود کو ترقی پسند ، غریب دوست اور خواتین کے حقوق کاعلمبردار قرار دیکر کاسمیٹک بیان اور پالیسیاں تو بناتی ہیں لیکن دل اور دماغ میں ان خواتین کے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ جس کی حالیہ مثال مسلم لیگ کے کا رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف ہے جس نے تحریک انصاف کے رکن مراد سعید پر تنقید کرنے کے لیے ان کی بہنوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ امید کی جارہی تھی کہ اسپیکر یا مسلم لیگ ن کوئی ایکشن لے گی لیکن سندھ اسمبلی کی طرح وہاں بھی معاملہ تنبیہہ تک محدود رہا۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ بی بی کو ایک سوچ نے قتل کیا اور ہم اس سوچ سے لڑ رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج ایک سوچ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، یہ سوچ جس میں خواتین کو برداشت کرنے کا کوئی مادہ نہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سردار، گڑنگ زمیندار، پیر اور میر ایوانوں میں اکثریت سے موجود ہوں گے تو خواتین کے ساتھ وہ ہی کچھ ہوگا جو اسمبلیوں کے اندر اور باہر نظر آرہا ہے اور ان کی ہمت تو اور بڑھ جاتی ہے جب قیادت بھی ہم خیال ہو۔