|

وقتِ اشاعت :   April 16 – 2017

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام پر قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کے قتل کو ‘وحشیانہ قتل’ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں سنیچر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اس واقعے میں ملوت لوگ اسے کسی نہ کسی طریقے سے مذہب سے جوڑ رہے ہیں لیکن اسلام تو ایک ماڈل ہے انصاف کے فریم ورک کا۔ چوہدری نثار نے کہا ‘اسلام میں تو کسی غیر مسلم سے بھی ظم و زیادتی کی اجازت نہیں ہے۔’ انھوں نے کہا ‘اگر کسی پر لگایا گیا الزام درست بھی ہے تو اس کا ایک طریقۂ کار موجود ہے ایسا تو وہاں ہوتا ہے جہاں جنگل کا قانون ہو۔’ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس واقعے پر صوبائی حکومت نے عدالتی تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہمیں عدالتی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے سے پیغام دیا گیا ہے کہ بعض لوگ کس طرح اس ملک میں اسلام کے نام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا کیوں کہ کئی ملکوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صرف این جی اوز کے ذریعے ہی پاکستان میں فنڈنگ کریں گے جب کہ ہمارے لیے ضروری تھا کہ غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو منظم کریں۔ انھوں نے کہا کہ این جی اوز کو کوئی بھی ملک مادر پدر آزادی نہیں دے سکتا اور یہ ہمارے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ چوہدری نثار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 62 این جی اوز کی باضابطہ رجسٹریشن ہوچکی ہے اور انھیں ایک خاص ضابطۂ کار کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔