ترکی میں جاری ریفرنڈم کے جزوی نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس کے مطابق صدر رجب طیب اردوغان کو ملک میں حکومت کرنے کی مکمل طاقت مل جائے گی۔ اب تک 98 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل کر لی گئی ہے جن کے بعد ‘ہاں’ کہنے والوں کی تعداد اکیاون اعشاریہ تین فیصد ہے جبکہ ‘نہیں’ کہنے والوں کی تعداد اڑتالیس اعشاریہ سات فیصد ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان ملک کے پارلیمانی نظام کو ایگزیکٹو صدارت سے بدلنا چاہتے ہیں۔ آج کے ریفرینڈم کی منظوری کی صورت میں اردوغان سنہ 2029 تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ رجب طیب اردوغان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کو جدید طرز پر لانے میں مدد ملے گی۔ تاہم ان کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ یہ آمریت کا باعث بن سکتی ہے۔ ترکی میں سنیچر کو سیاست دانوں نے ریفرینڈم کے لیے ہونے والی مہم کے آخر روز ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کی اپیلیں کیں۔ آج کے ریفرینڈم کے لیے 1,67,000 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جہاں ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس ریفرینڈم کے نتائج اتوار کی شام آنے کی توقع ہے۔ اگر ریفرینڈم کے نتائج صدر اردوگان کے حق میں گئے تو انھیں کابینہ کے وزرا، ڈگری جاری کرنے، سینیئر ججوں کے چناؤ اور پارلیمان کو برخاست کرنے کے وسیع اختیار حاصل ہو جائیں گے۔ ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش سکیورٹی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ استنبول میں ریفرینڈم سے قبل آخری ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے اپنے حامیوں کو بتایا ‘نئے آئین سے ملک میں استحکام اور اعتماد آئے گا جو ملکی ترقی کی ضرورت ہے۔ ترک پارلیمان نے جنوری میں آئین کے آرٹیکل 18 کی منظوری دی تھی تاہم اس موقع پر پارلیمان میں ہاتھا پائی بھی دیکھنے کو ملی۔ ترکی میں گذشتہ برس ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد میڈیا اور دیگر اداروں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم صدر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک کے استحکام کے لیے تبدیلیاں ضروری ہیں۔ نئی اصلاحات کے تحت ملک کے وزیراعظم کا عہدہ موجودہ وزیراعظم بن علی یلدرم کے بجائے کسی اور شخصیت کے پاس جائے گا یا پھر اس عہدے کے جگہ نائب صدر لیں گے۔