اوتھل: ہائیرایجوکیشن کمیشن پاکستان کو بلوچستان کی یونیورسٹیوں پر جس طرح توجہ دینی چاہے اس طرح نہیں دی جاتی ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہیلتھ اور ایجوکیشن کو تباہ و بربادکر دیا گیا ہے۔ ان خیلات کا اظہار چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے تعاون سے لسبیلہ یونیورسٹی میں پہلا انٹرنیشنل کانفرنس اکنامکس بزنس اینڈ سوشل ریسرچ کت عنوان سے جو فیکلٹی آف سوشل سائنسز منیجمنٹ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی ۔ سی پیک کے تحت بلوچستان کے لئے 12پروجیکٹ منظور لیے گئے ہیں لیکن ابھی تک ان منصوبے ڈاکومنٹس نہیں بنائے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ USAIDنے بھی بلوچستان میں کروڑوں ڈالر خرچ لیے لیکن ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آسکی اور نہ ہی ان منصوبوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ چائنا پاکستان کا یہ معاہدہ طویل مدت کے لئے کیا گیا ہے اس منصوبے میں ٹیکنیکل افرادی قوت کی ضرورت پڑے گی اس کے لئے ہمیں ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دینی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ ترقی کے مخالف نہیں ہیں لیکن بلوچستان کے تحفظات دور کرنے ہونگے اور بلوچستان کے لوگ محب وطن ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور گوادر پورٹ میں فری زون پر بھی کام ہو رہا ہے اور بلوچستان ترقی کی طرف گامزن ہے اور اس ترقی سے بڑی تبدیلی آئے گی ۔ لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر دوست محمد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہائیر ایجوکیشن کمیش اسلاآباد نے لسبیلہ یونیورسٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے لسبیلہ یونیورسٹی میں ایک اینٹ بھی نہیں لگائی گئیجبکہ صوبائی حکومت ہمیں یہ کہتی ہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی پر خود کش حملوں کا خطرہ ہے جبکہ لسبیلہ یونیورسٹی کا رقبہ 400ایکڑ پر مشتعمل ہے اور یہ واحد یونیورسٹی ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جس کی چار دیواری بھی نہیں ہے جبکہ صوبائی حکومت کو چار دیواری کے متعلق کئی بار تحریری طور پر آگاہ کر چکے ہیں ۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہایک طرف گوادر کی ترقی کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن گوادر کے عوام پینے کے صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عتیق جمالی نے کہا کہ قومیں ہیومن ریسورس سے ہی بنتی ہیں جب تک ہیومن ڈویلپمنٹ نہیں ہوگی ترقی ممکن نہیں انہوں نے کہا کہ سی پیک سے مقامی افراد کو فائدہ نہیں ہو رہا ۔اس موقع پر عابد مستی خان ، ڈاکٹر مظفر ، ڈاکڑ نزحت ، ڈاکٹر فرزانہ یاسمین ، وائس چانسلر بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری اختر بلوچ، یونیورسٹی آف کیمبرج کے ڈاکٹر عارف نوید ، لسبیلہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر جان محمد ، ڈاکٹر ناصر عباس ، ڈاکٹر جلال فیض، ڈاکٹر میر دوست، سمینہ خلیل ، فرحان صدیقی نے خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر حمید بلوچ، تربت یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر حنیف الرحمان ،پی آر او عبدالوحید گچکی ، لیگل ایڈوائزر نجم شیخ ،شیر احمد بنگلزئی،طاہر رونجھو، امان اللہ رونجھو ،پروجیکٹ ڈائریکٹر قادر رونجھو ، محمد انور موندرہ ، خلیل رونجہ، محمد ہاشم رونجہ، موسیٰ جاموٹ، ٹرانسپورٹ آفیسر فقیر محمد بلوچ، قادر بخش ، عبدالقیوم اور دیگر بھی موجود تھے ۔علاوہ ازیں ٹیکنیکل سیشن میں ایگری مزنس کے حوالے سے مختلف ریسرچ اسکالرز نے اپنے مکالمے پیش کیے ۔ سیشن کی صدارت ڈاکٹر حمید بلوچ نے کی جبکہ تربت یونیورسٹی کے رجسٹرارڈاکٹر حنیف الرحمان ، ڈاکٹر سید رحمت اللہ شاہ ان کی معاونت کر رہے تھے ۔ مذکورہ ٹیکنیکل سیشن میں ماہی گیری اور حیوانات کے فروخت کے متعلق آگاہی دی گئی ۔ اس موقع پر فشری ڈپارٹمنٹ کے معظم علی خان نے سمندری حیاتیات کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سمندری حیاتیات کو درپیش ماحولیاتی تبدیلیوں کے علاوہ سب سے ذیادہ خطرہ ماہی گیری کے شعبہ سے وابستہ افراد سے ہے ۔ کیونکہ حکومت زرمبادلہ کے اس اہم ذریعے کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہی ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ بے دریغ شکار کی وجہ سے سمندری حیات اب بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں مکمل طور پر ناپید ہو چکی ہے جس کی واضح مثال شارک مچھلی کی نایابی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شارک مچھلی کسی دور میں حکومت پاکستان کے لئے زرمبادلہ کا اہم ذریعہ تھا لیکن اب ہمارے سمندر میں یہ مچھلی مکمل ختم ہو چکی ہے اس طرح جھینگے اور دیگر سمندری حشرات کو بھی مستقبل قریب میں مختلف قسم کے چیلنج درپیش ہیں ۔ انہوں نے کہا موجودہ صورت حال کے پیش نظر ممکن ہے کہ یورپی ممالک کے ہماری سمندری شکار پر پابندی کی وجہ سے ہمارا پڑوسی اور دوست ملک چین بھی جھینگو کی برآمد پر پابندی آئد کرے۔ معظم علی خان نے کہا کہ سات سو ماہی گیری کشتیاں ایسی بھی ہیں جو پاکستان اور ایران دونوں ممالک میں رجسٹر ہیں جس کے نتیجے میں ہماری مچھلی کو ایران کے ساحلی علاقوں میں لے جایا جاتا ہے اور اسے ساختہ ایران کے نام باہر درآمد کیا جاتا اور پاکستان قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہو جاتا ہے جبکہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں وندر اور اس کے قرب و جوار میں قائم فش فیڈ کے کارخانے نہ صرف سمندری حیات کے خاتمے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کے فرسودہ خشک کرنے کی وجہ سے چالیس فیصد سے ذیادہ مچھلی کے پروٹین ضائع ہو جاتے ہیں ۔ لسبیلہ یونیورسٹی کے ڈاکڑ الٰہی بخش مرگزانی نے بلوچستان حیوان حیات اور خاص طور پر دودھ دینے والے جانوروں کی سائنسی بنیادوں کے حوالے سے کی گئی ریسرچ کے نتائج سے سیشن کے شرکاء کو آگاہی فراہم کی ۔ سیشن کے شرکاء نے ایگری بزنس کے حوالے سے مختلف مکالات پیش کیے ۔پروگرام کے اختتام پر وائس چانسلر ڈاکٹر دوست محمد نے شرکاء میں شیلڈ اور سرٹیفکیٹ تقسیم کیے ۔