|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی مذمتی بیان میں کہاگیاہے کہ 40لاکھ افغان مہاجرین جو غیر قانونی طورپر بلوچستان میں آباد ہیں ان کی شناختی کارڈ کی اجراء کی تگ ودو باعث مذمت ہے ،مقامی پشتونوں کی شناختی کارڈ کی اجراء ضرور کی جائے لیکن ساڑھے 5لاکھ افغانوں کی شناختی کارڈ کی اجراء کسی بھی صورت درست اقدام نہیں ہے ،ملکی وبین الاقوامی مسلمہ قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اتنی بڑی آبادی یلغار کو بلوچستان میں آباد رکھاجائے ،افغان مہاجرین نہ صرف بلوچوں بلکہ پشتونوں سمیت تمام بلوچستانیوں کیلئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں اور مستقبل میں معاشی ومعاشرتی طور پر مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا،بیان میں کہاگیاکہ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکیوں جو اس سے قبل شناختی کارڈ حاصل کررکھے تھے یہاں تک کہ طالبان کا سربراہ ملا اخترمنصور نے بھی قلعہ عبداللہ سے شناختی کارڈ حاصل کررکھاتھا بیان میں اسی طرح اب مرکزی حکومت نے جو پالیسی اپنائی اس متعلق کہ 1978سے قبل کی دستاویزات کی شرائط عائد کرنا ایک بونڈا مذاق قراردیا اورکہاکہ ایسے اقدامات سے عوام کی آنکھوں میں دھول جونکھی جاسکتی ہے لیکن ایسے عمل کسی بھی طرح عوامی مفاد میں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جعلی شناختی کارڈ بلوچستان سے جاری ہوچکے ہیں اب انہیں بیک جنبش قلم بلاک شدہ شناختی کارڈ کی اجراء قابل مذمت عمل ہوگا ،بیان میں کہاگیاکہ ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں نے شناختی کارڈ حاصل کررکھے ہیں اور بہت سے نادرا اہلکار اس حوالے سے سزائیں بھی کاٹ رہے ہیں اور ثابت ہوچکاہے کہ بلوچستان کے نادرا کے آفیسران سیاسی اور پیسوں کی بل بوتے پر بلوچستان میں شناختی کارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹتے پھرتے تھے اور سابق ڈی جی نادرا کی خط بھی منظر عام پر آچکی تھی کہ سیاسی بنیادوں پر بلاک شدہ شناختی کارڈ کیلئے ان پر دباؤ ڈالا جارہاہے کہ جعلی شناختی کارڈ کھولے جائیں ،بیان میں کہاگیاکہ ایسے افراد کیلئے 1978کی دستاویزات نادرا حکام کے سامنے پیش کرناکوئی مشکل کام نہیں ،بیان میں کہاگیاکہ ایسے تمام افراد جن کی غیر ملکی شہریت ہے انہیں کسی بھی طور پر کوئی حق نہیں کہ وہ ملکی شناختی کارڈ حاصل کرے ،بیان میں کہاگیاکہ مہاجرین کے بل بوتے پر ایوان تک رسائی حاصل کرنے والے جماعتیں مہاجرین کو مقامی آبادی قراردینے کیلئے آخری حد تک جارہی ہیں ،مہاجرین کی سبب پیدا شدہ مسائل مزید پسماندگی کی طرف ہمیں دھکیل رہے ہیں اس میں نہ صرف بلوچ متاثر ہونگے بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہت سے چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھے کیونکہ اس سے تمام بلوچستانی متاثر ہورہے ہیں اور فرقہ واریت ،دہشت گردی ،طالبانائزیشن ،مذہبی جنونیت ،انتہاپسندی ،کلاشنکوف کلچر انہیں کے دئیے تحفے ہیں جو ہم آج بھگت رہے ہیں ۔بلوچستان عدالت عالیہ نے مردم شماری کا دوسرا مرحلہ اب ہونے کو ہے 2017کی خانہ شماری میں بلوچستان کی پشتون اضلاع میں افغان مہاجرین کی وجہ سے وہاں کی آبادی میں 4سو سے 5فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیاہے ،اب جب معزز عدالت نے ان مہاجرین کو خانہ ومردم شماری سے دور رکھنے کے حوالے سے واضح فیصلہ دیا اب اس متعلق کہ شناختی کارڈ کے اجراء جاری کرنا قابل مذمت ہے ،لاکھوں کی تعداد میں بلاک شدہ شناختی کارڈ کی اجراء کیلئے یہ عمل لازمی ہے کہ مکمل طور پر جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی کے ذریعے انہیں فرکتے ہوئے دیکھاجائے اس کے برعکس بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستانیوں کی وسیع ترین مفادات کی خاطر خاموش نہیں رہے گی اور نہ ہی قانونی ،اخلاقی اور نہ ہی شرعی طور پر انہیں یہ حق ہے کہ انہیں شناختی کارڈ کااجراء کیاجائے اورانہیں مردم شماری اورانتخابی فہرستوں کاحصہ بنایاجائے بلکہ فوری طور پر انہیں باعزت طریقے سے مہمانوں کو افغانستان بھیجاجائے اگر پنجاب یا خیبرپشتونخوا کے بھائی ان کے ساتھ اتنی دلی ہمدردی رکھتے ہیں توانہیں میاں نوالی ،لاہور پشاور میں آباد کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔