کوئٹہ: گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان بنیادی تعلیم پروگرام سے متعلقہ منعقدہ تقریب سے معیاری تعلیم کو فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ کے لئے بین الاقوامی سطح پر مقررہ صد سالہ ہدف کے حصول میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات باعث تشویش ہے کہ بین الاقوامی کمٹمنٹ کے باوجود عالمی سطح پر معیاری تعلیم کی فراہمی اور خواندگی میں اضافہ کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز بلوچستان بنیادی تعلیم پروگرام کی افتتاحی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کا اہتمام محکمہ تعلیم بلوچستان نے یونیسف اور یورپی یونین کے تعاون سے کیا تھا۔ تقریب میں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال، یورپی یونین کے پاکستان میں سفیر Mr. Jean Frncois Caution، یونیسف کی نمائندہ Ms. Angela Kearney، سیکریٹری تعلیم شان الحق، ماہرین تعلیم کے علاوہ کئی سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان نے کہا کہ تعلیم تبدیلی اور ترقی کا مؤثر ذریعہ ہے یہ فرد کی تزئین اور ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعی، معاشرتی تبدیلی اور ترقی میں معاون کردار ادا کرتی ہے۔ گورنر نے شرح اور معیار تعلیم کی بہتری کے لئے اس منصوبے کا بلوچستان سے آغاز کرنے پر یورپی یونین اور یونیسف کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی اہمیت اور افادیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے قابل اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان میں موجود نظام میں ضروری تبدیلی لاسکیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان خاص طور پر بلوچستان میں شرح تعلیم بہت کم ہے اور یورپی یونین، یونیسف اور عالمی بینک کی موجودہ کاوشیں ہمارے لئے سود مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی ادارے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ وتنقیدی ذہن پیدا کریں جو چیزوں کا صحیح ادراک حاصل کرسکیں۔ تحقیقی جذبے کو ابھارنے اور نئے سوالات کو جنم دیں۔ مادری زبانوں کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے سے نہ صرف بچوں کی تفہیم میں گہرائی پیدا ہوگی بلکہ چیزوں کو سمجھنے اور جانچنے کی قوت میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے میں تعلیم کے فروغ، تعلیمی اداروں کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے اور طلبہ کو بہتر سہولیات ومواقع فراہم کرنے کو اولین ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیرسرکاری اداروں کا بھی اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیرانتظام تین سو سے زائد اسکول کام کررہے ہیں انہوں نے فاؤنڈیشن کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے صوبے میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کی فراہمی میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ایسی کاوشوں کو کامیاب بنانے کے لئے تمام متعلقہ حلقوں کو مضبوط تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آج بھی ایک کمرے میں ایک اسکول کی روایت برقرار ہے۔ اس روایت کو ختم کرنے کی حکومتی کاوشیں جاری ہیں تاہم بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے تعاون سے ان کوششوں کو بارآور بنایا جاسکتا ہے۔ قبل ازیں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال، پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر اور یونیسف کی نمائندہ نے بھی خطاب کیا۔ افتتاحی تقریب کے آخر میں لیپ ٹاپ اور دیگر متعلقہ آلات تقسیم کئے گئے۔دریں اثناء صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے یورپی یونین کے مالی تعاون اور یونیسف کی جانب سے بلوچستان بنیادی تعلیمی پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شروع کے دن سے ہی صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات رہی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت نے اس مسئلہ کو نہ صرف ہر فورم پر اٹھایا بلکہ صوبے کے تمام بچوں اور بچیوں کو تعلیم تک رسائی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے تاکہ صوبے سے تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ امتحانی طریقہ کار کو بہتر بنانے اور نصاب کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے جامع حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ صوبے سے تعلیمی پسماندگی ختم کرنے کے لئے تمام ڈونرز کی مالی اور تکنیکی معاونت کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم نے اس موقع پر کہا کہ موجودہ حکومت نے تعلیمی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی بجٹ کو 3فیصد سے بڑھا کر 24فیصد کردیا ہے۔ اسی طرح 5000اساتذہ کو این ٹی ایس کے ذریعہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تاکہ صوبے کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لئے نقل کے خاتمے کے لئے بھی ٹھوس حکمت عملی اپنائی گئی جس کے مثبت اثرات عنقریب ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں موجود تمام پرائمری اسکولوں کو جینڈر فری قراردیا گیا ہے تاکہ بچے اور بچیوں یکساں طور پر تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل ہو۔ اسی طرح کئی کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور مزید یونیورسٹیز کا قیام بھی اس سال عمل میں لایا جائے گا تاکہ بلوچستان سے پسماندگی اور جہالت کے اندھیرے ہمیشہ کے لئے چھٹ جائیں ۔ اسکولوں اور کالجز سے بچوں اور بچیوں کے ڈراپ آؤٹ کو روکنے کے لئے بھی ٹھوس اور جامع حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ اسکولوں میں بچوں اور بچیون کے داخلوں کے لئے پارٹی پلیٹ فارم سے پچھلے کئی سالوں سے جبکہ حکومت کے فورم سے ہر سال منظم مہم چلاتے رہے ہیں جس کے مثبت اثرات بھی عوامی سطح پر محسوس کئے گئے ہیں۔ مشکلات اور محدود وسائل کے باوجود صوبائی حکومت نے ایک ہزار کے قریب پرائمری اسکول کھولنے کا جامع منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ 400پرائمری اسکولوں کو مڈل کا درجہ دیا جبکہ 193مڈل اسکولوں کو ہائی کا درجہ دیا گیا جبکہ کئی ہائی اسکولوں کو کالجز کا درجہ دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس کی بدولت بچوں کو قریبی علاقوں میں تعلیم تک رسائل حاصل ہوجائے گی ہائی اسکولوں کو درس وتدریس کے سامان کے حصول کے لئے اصل ضروریات کی بنیاد پر فنڈز کی فراہمی بھی کی گئی ہے کہ ہر اسکول اپنی ضرورت کے مطابق ضروری سامان خود خرید سکیں گے۔ اسی طرح مادری زبانوں میں تعلیم کالوکل لیگویج ایکٹ جس کے تحت ہر اسکول میں مادری زبان کو متعارف کرایا گیا۔ اس موقع پر یورپی یونین کے سفیر جین فرینکوئس کو ٹین Mr.Jean Francous Cautainنے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان آنا ان کے لئے باعث خوشی ہے اور بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر صوبے میں تعلیم کی بہتری کے لئے شراکت پر خوشی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے مختلف ڈونرز اور غیرملکی اداروں کی توجہ بلوچستان تعلیمی اصلاحات کی طرف ہوئی اس سلسلے میں یورپی یونین و دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر تجویز کردہ تعلیمی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بیس ملین یوروز میں تعلیم اور تعلیمی انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لئے فراہم کررہی ہیں۔ اس موقع پر نمائندہ یونیسف مس انجیلہ کیرنی Ms. Angila Kearncy نے کہا ہے کہ صوبے میں تعلیمی اصلاحات کے لئے یونیسف صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر اقدامات کررہی ہے جس کے دوررس اثرات تعلیم کے شعبے میں نظر آئیں گے۔