کوئٹہ : بی ایس او آزاد کی جانب سے 2مئی کو شہید فدابلوچ کی 29 ویں برسی کی مناسبت سے ایک ریفرنس منعقدکیا گیاجس میں رہنماوں نے شہید فدا بلوچ کی کردار اور قائدانہ صلاحیتوں پر روشنی ڈالی۔ رہنماؤں نے کہا کہ فدا بلوچ ایک ایسے کردار کے مالک تھے کہ انہوں نے بلوچ قومی غلامی کے خاتمے اور آزادی کے حصول کو اپنا مقصد بنایا تھا۔ قبضہ گیر کی نفسیات سے فدا بخوبی واقف تھا اس لئے کبھی بھی دشمن کے دھوکے اور لالچ کا کبھی شکار نہیں ہوئے۔ نیپ کے ٹوٹنے کے بعد فدا بلوچ نے جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے بی ایس او کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس وقت کے موقع پرستوں نے فدا بلوچ کی کوششوں کے سامنے روڑے اٹکائے، موقع پرستوں کا وہ گروہ اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کے بجائے آج بھی تحریک کے خلاف اپنے اُسی پالیسی پر عمل پھیرا ہے۔ اس موقع پرست گروپ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ ہم فدا جیسے لیڈروں کو راستے سے ہٹا کر قومی آزادی کے اداروں پر قبضہ کریں ۔شہید فدا اور اس کے دوستوں نے بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ جیسے ادارے کی بنیاد رکھا جو آج بھی بی این ایم کی شکل میں بلوچ قومی تحریک میں ایک ماس پارٹی کی کردار ادا کر رہی ہے۔رہنماوں نے مزید کہا کہ ادارے اور لیڈر شپ لازم و ملزوم ہوتے ہیں اگر آج یہ جد وجہد جاری ہے یا یہ ادارے باقی ہیں تو شہید فدا اور شہید غلام محمد جیسے لیڈروں کی بدولت ۔ ریاست کی ہمیشہ سے کوشش یہی رہی ہے کہ وہ بلوچ قوم کے حقیقی لیڈرا ن کو راستے سے ہٹانے کے لئے موقع پرست گروہوں کو استعمال کرے۔ اسی طرح 2مئی 1988کو فدا بلوچ کو ریاست کے مقامی آلہ کاروں نے شہید کردیا، لیکن کی فدا بلوچ کی جدوجہد کو ختم نہ کرسکے ۔ ریاست اور اس کے مقامی گماشتوں نے شہید غلام محمد سمیت ہزاروں سیاسی رہنماؤں کو جسمانی طور پر اس لئے جدا کردیا کہ وہ بلوچ جدوجہد کا خاتمہ کرسکیں، لیکن یہ ایک حقیقت کے رہنماؤں کو جسمانی طور پر اگرچہ دشمن جدا کر سکتی ہے ، لیکن اُن کی نظریہ کو ریاست کی طاقت ختم نہیں کرسکتی ۔ بلوچ قومی تحریک کا تسلسل اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست کی طاقت کوبلوچستان میں ہرصورت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، جب تک بلوچ قوم کے اندر فدا اور اس کے ساتھیوں کی فکر موجود ہے تو اس تحریک کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔