بلوچستان میں قائداعظم صوبائی لائبریری اور سردار نوری نصیر خان کلچرل کمپلیکس آڈیٹوریم کا افتتاح کیا گیا ۔قاعداعظم لائبریری کا افتتاح موجودہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے ۔قائداعظم لائبریری کو جدید تقاضوں کے تحت بنایا گیا جو کہ بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہے ۔ بلوچستان میں لائبریری کے قیام سے صوبے کے طالب علموں، دانشوروں اور ادیبوں کو بہت فائدہ حاصل ہوگا ۔بلوچستان میں لائبریری کی ضرورت گزشتہ کئی ادواروں میں محسوس کی گئی لیکن معائنہ کے بعد پتہ چلا کہ پہلی دفعہ یہ کتب خانہ امریکی مرکزِ اطلاعات کے تحت قائم ہوا۔ اس کا افتتاح 11 مارچ 1957ء کو اس وقت کے کمشنر مسٹر معزالدین احمد نے کیا تھا ۔ اُس موقع پر امریکہ کے پاکستان میں تعینات سفیر اے ہیلڈرتھ بھی موجود تھے۔ 1969ء میں اس کتب خانے کو کوئٹہ ڈویژنل لائبریری کا درجہ دے کر محکمہ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا اور کتب خانے کو وقتاًفوقتاً ہیڈ ماسٹر صاحبان چلاتے رہے۔ 1977ء کو اس کتب خانے کے پہلے پروفیشنل لائبریرین نور محمدصاحب تعینات کیے گئے جو 29 دسمبر 2009 کو سینیئر لائبریرین کے عہدے سے ریٹائر ہو گئے انھوں نے 32 سال اس کتب خانے میں فرائضِ منصبی کو بھر پور انداز سے پورا کیا ۔ ان کی جگہ محمد عمران جتک صاحب نے 2010 میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالا اور 2016 سے بحیثیت سینیئر لائبریرین ، اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
1972ء میں اس وقت کے صوبائی وزیر میر گل خان نصیر نے اس کتب خانے کو بلوچستان پبلک لائبریری کادرجہ دے دیا۔ شروع میں یہ کتب خابہ چائنہ ہوٹل کے بالمقابل کبیر بلڈنگ میں کرائے پر تھا۔ جس کی عمارت اس بڑھتے ہوئے کتب خانے کے لئے ناکافی ہوگئی۔ لہٰذا اس کتب خانے کو ایک کشادہ عمارت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتِ بلوچستان نے بلوچستان کی عوام الناس پر ایک بڑا احسان کیا اور 1980ء میں جناح روڈ پر کتب خانے کے لئے تین منزلہ عمارت کی بنیاد رکھ دی، جو 25 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر ہوئی۔ 20 اگست 1982ء میں یہ کتب خانہ کبیر بلڈنگ سے اپنی نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل ہوا۔1983ء کو اس کا نام تبدیل کر کے بلوچستان صوبائی لائبریری رکھ دیا گیا۔
1994ء میں اُس وقت کے صوبائی وزیر کچکول علی ایڈووکیٹ صاحب نے تین لائبریریاں پنجگور میں اور ایک لائبریری تربت میں بنوائی اور ان کی انتظامی ذمہ داری بھی صوبائی لائبریری بلوچستان، کوئٹہ کے سپرد کر دی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان لائبریریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ اب اللہ پاک کے فضل وکرم سے پورے بلوچستان میں پبلک لائبریریوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور عوام الناس اِن لائبریریوں سے بھرپور فائدے حاصل کر رہے ہیں اور اپنی علمی صلاحیتوں میں بھر پور اضافہ کر رہے ہیں۔ صوبائی لائبریری بلوچستان پوری ذمہ داری سے دیگر لائبریریوں کی تشکیلِ نو کے مراحل اور انتظامی امور کو احسن طریقے سے سر انجام دے رہی ہے۔
1994ء میں بلوچستان صوبائی لائبریری کو محکمہ تعلیم سے علیحدہ کر کے محکمہ کھیل و ثقافت کے ساتھ منسلک کیا گیا ، 1997 ء میں مذکورہ لائبریری کی ذمہ داری محکمہ اطلاعات، کھیل و ثقافت کو سونپ دی گئی۔ 1998 ء میں لائبریری کو محکمہ تعلیم و لائیو اسٹاک کے ماتحت کر دیا گیا۔ 2002ء میں سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی و ثقافت کے ساتھ منسلک کیا گیا، اور 2004 ء سے محکمہ ثقافت ، سیاحت و آثارِقدیمہ کے ماتحت کام کر رہا ہے ۔
کوئٹہ میں مختلف اوقات کے دوران آنے والے زلزلوں کی وجہ سے جناح روڈ پر واقع لائبریری کے ستونو ں میں دراڑیں پڑ گئیں اور عمارت کی حالت خطرناک ہو گئی۔ لہٰذا جون 2010ء میں لائبریری کونوری نصیر خان کلچرل کمپلیکس منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں جناح روڈ پر واقع لائبریری کی عمارت کو مسمار کر دیا گیا اور اس کی جگہ حکومتِ بلوچستان نے ایک نئی عمارت کی تعمیر 2014 ء میں شروع کی جو کہ بہت ہی قلیل عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔
31/01/2017کو ایک پروقار تقریب میں شارع عدالت پر اس کی پرانی جگہ پر ایک خوبصورت ثقاتی طرز تعمیر کی عمارت بنائی گئی ۔ اس لائبریری کو دو سال کی قلیل مدت میں تعمیر کیا گیا جس میں طلباء کے بیٹھنے کیلئے 500سے زائد نشستوں کی گنجائش رکھی گئی ۔اس لائبریری میں وائی فائی اور انٹرنیٹ کی بھی سہولت موجود ہے جبکہ ریفرنس سیکشن، سرکولیشن سیکشن، جرائد اور اخبارات سیکشن ، خواتین کے لئے علیحدہ سیکشن قائم کئے گئے ہیں ۔موجودہ لائبریری میں بچوں کے لئے لائبریری اور ڈے کیئرسینٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔ ریسرچ اسکالرز کے لئے علیحدہ سیکشن بھی قائم کیا گیا ہے ۔جبکہ موجودہ لائبریری میں عصری ہم آہنگی کے تمام پہلوؤں پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ اس لائبریری کا نام ” قائدِاعظم لائبریری بلوچستان” رکھ دیا گیا ہے۔صوبے میں لائبریری ڈائریکٹریٹ کے قیام کی شدید ضرورت ہے جبکہ صوبہ بلوچستان کے باقی اضلاع میں لائبریریوں کی شدید ضرورت ہے اور ان سب لائبریریوں کا آپس میں منسلک ہونا ضروری ہے ان لائبریوں کو جدید تقاضے پورا کرنے کے لئے ڈائریکٹریٹ کا ہونا لازمی ہے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاًمختلف لائبریریوں میں موجود کتابوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ صوبہ بلوچستان میں قائم کالجوں اور سکولوں میں لائبریریوں کو فعال کیا جائے اور مادری زبانوں میں کتب کی اشاعت کو اہمیت دی جائے تاکہ اس سے مادری زبانوں کو فروغ مل سکے۔
اس پروقار تقریب میں پہلی دفعہ علامہ اقبال بک ایوارڈ کا انعقاد بھی کیا گیا جس کے تحت ادیبوں و شعراء کوشاعرِمشرق علامہ اقبال بک ایوارڈ سے نوازا گیا ۔یہ ایوارڈ 2011-12 کے ایوارڈ تھے جبکہ 2013سے لے کر2017ء تک کے ایوارڈ ابھی تک نہیں دئیے گئے ہیں ۔بلوچستان میں ادیبوں وشعراء کے لئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔میں سمجھتا ہوں صوبائی حکومت ادیبوں اور شعراء کے لئے ایک اینڈومنٹ فنڈ قائم کرے جس سے ادیبوں اور شعراء کی مشکلات میں کمی آسکے۔جبکہ یہ ایوارڈ ہر سال منعقد کیا جائے تاکہ مصنفین ،ادیبوں اور شعراء کو ان کی محنت کا صلہ مل سکے اور نئے آنے والے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے ۔ملک میں ہونے والے بک فیسٹیول جیسا کہ کراچی اور لاہور میں ہر سال بڑے پیمانے پر منعقد کیے جاتے ہیں اسی طرح بلوچستان میں بھی کوئٹہ بک فیسٹیول کا انعقاد ضروری ہے تاکہ معاشرے میں شعور پیدا ہو سکے اور بلوچستان میں شائع ہونے والی کتب کو نمائش کا موقع مل سکے ۔صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے لائبریریوں کا فقدان اور کتب بینی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہمارے مقامی پبلشرز نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں اور جس کی وجہ سے آج تک ہمارے رائٹرز کو کتابوں کی رائیلٹی کی مدمیں چند کتابیں دی جاتی ہیں اور ان کو اصل رائیلٹی نہیں دی جارہی۔
موجودہ حکومت کا ایک اور اچھا اقدام سردار نوری نصیر خان کلچرل کمپلیکس آدیٹوریم کا قیام ہے جوکہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ دیجیٹل تھیٹر اور بلوچستان کا سب سے بڑا آڈیٹوریم ہے ۔ بلوچستان کی تہذیب وثقافت کے فروغ اور مقامی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے لیکن صوبہ میں موجود فنکاروں کے لئے کوئی اینڈومنٹ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے فنکاروں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔فنکار جوکہ معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے ۔صوبائی حکومت کو چاہئے کہ فنکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ایک جامع منصوبہ بنائے تاکہ وہ بھی اپنے آپ کو معاشرے کا حصہ سمجھیں ۔