کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے سانحہ مستونگ اور گوادر پر وفاقی حکومت سے ان کیمرہ بریفنگ مانگ لی۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ مستونگ خود کش دھماکے میں لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے۔
پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لئے داعش سے ذمہ داری قبول کروائی گئی۔بلوچستان اسملبی کا اجلاس پینل آف چیئرمین کی رکن یاسمین لہڑی کی زیر صدارت شروع ہوا تو سانحہ مستونگ اور گوادر میں جاں بحق افراد کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔
جس کے بعد ایجنڈے کی کارروائی معطل کر کے سانحہ مستونگ پر اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی مشترکہ تحریک التواء4 پر بحث کا آغاز ہوا بحث میں حصہ لیتے ہوئے ااپوزیشن اور حکومتی اراکین نے سانحہ مستونگ اور گوادر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سرحدوں کو محفوظ ، ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے سمیت داخلہ اور خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب دینا ہو گی۔
دوسروں کی جنگ کو اپنانے سے زیادہ نقصان ہمارا ہوا۔بلوچستان میں تسلسل سیدہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں۔
جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے کاہ کہ بلوچستان میں تسلسل سے دہشتگردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے تحفظات کے باوجود قومی مفادمیں نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کی۔مولانا فضل الرحمن ،مولانا شیرانی اور مولانا غفورحیدری پر حملے کے باوجود دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں اب ہمیں ایک فیصلے پر متفق ہونا ہوگا۔
ایوان میں فیصلے کے باوجود ہمیں امن وامان سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ نہیں دی گی۔جس پر صوبائی وزیر عبد الرحیم زیارتوال نے کہا حکومت چیف سیکرٹری کے ذریعے وفاقی حکومت کو خط لکھے گی کہ سیکورٹی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ سانحہ مستونگ اور گوادر کے متعلق ایوان کو ان کیمرہ بریفنگ دیں۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہاکہ مستونگ حملے میں داعش نہیں بلکہ لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے داعش سے اس لئے قبول کروایا گیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان میں افراتفری اور انارکی پھیلانے کے لئے مولانا عبدالغفور حیدری نشانہ بنایا گیا لیکن ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔
ایوان کو سیکورٹی معاملات پر ان کیمرہ بریفنگ دینے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ گوادر واقعہ شرمناک اور بزدلانہ ہے.
بلوچ پشتون روایات میں نہتوں پر وار کی گنجائش نہیں۔ گوادر میں دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو ماراہے کسی بلوچ نے سندھیوں کو نہیں۔ ایسے واقعات بلوچستان کی ترقی کے سفر کو روک نہیں سکتے۔
بے گناہ اور نہتوں کو مارنا نہ ہی قوم پرستی ہے نہ بلوچ پرستی۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری سیکورٹی فورسز اور اداروں نے دہشت گردی کے بہت سے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔کوئٹہ:8اگست اورمستونگ کا واقعہ کیا کسی اور تنظیم نے ہے قبول داعش کرتی ہے۔
داعش سے ذمہ داری قبول کروانے کا مقصد ہماری ایٹمی قوت کو غیر محفوظ ظاہر کرنے کا تاثر دیناہے۔ پاکستان کوئی کمزور ریاست نہیں جسے کوئی بھی آکر استعمال کر لے۔ انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں۔
ہمارا اتحاد دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے کافی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فورسز کی نہیں بلکہ سب کی ہے۔ اپوزیشن رکن عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بلوچستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔گزشتہ4سالوں کیدوران کئی سیاسی رہنماؤں پرحملے ہوئے۔
دہشتگرد بلوچستان کی ترقی روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن دہشتگرداپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیگناہوں کا خون بہاکر دہشتگرد کونسا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ مولاناغفورحیدری پر حملہ کونسا جہاد ہے۔
سیاسی،جمہوری اور مذہبی قیادت پر دہشتگرد حملے ہوئے۔ ہم آج بھی دوسروں کے جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔ کوئٹہ:خارجہ پالیسی پر نظرثانی نہ کی تو اسی طرح لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ایران اور افغانستان سے حالات بہتر بنانا ہوں گے۔
اے این پی کے رکن اسمبلی انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ خارجہ کیساتھ ساتھ داخلہ پالیسی پربھی غورکرناہوگا۔
دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔ صوبائی وزیر ریونیوجعفرمندوخیل نے کہا کہ دوسروں کی جنگ کو اپنانے سے ہمارا زیادہ نقصان ہوا۔
مولانا غفورحیدری پر حملے کا مقصد انتشار پھیلانا تھا۔اجلاس میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے مشترکہ تحریک التواء ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مستونگ کے قریب جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل و ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر اس وقت ایک دھماکہ کیا گیا ۔
جب وہ مدرسہ کے طلبہ کی دستار بندی کی تقریب سے واپس آرہے تھے جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے دھماکے میں28افراد شہید اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے ہیں لہٰذا اسمبلی کی تمام کارروائی روک کرتحریک التواء کو زیر بحث لایا جائے۔
انہوں نے اپنی تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار سال کے دوران کئی ایک واقعات ہوچکے ہیں ہمارے قائدین مولانا فضل الرحمان مولانا محمدخان شیرانی اور مولانا عبدالواسع پر خودکش حملے ہوچکے ہیں اور اب مولانا عبدالغفور حیدری کو نشانہ بنایا گیا دہشت گرد انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں ۔
ہمارے سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی نشانہ بنتے آئے ہیں اور آج گوادر میں دس مزدوروں کو بھی قتل کیا گیا دہشت گرد ایسے ہتھکنڈوں سے ہمیں مرعوب نہیں کرسکتے .
انہوں نے استدعا کی کہ آج کے اجلاس کی تمام کارروائی روک کرتحریک التواء پر بحث کی جائے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے تحریک التواء پر بحث کی حمایت کی ۔
جس پر پینل آف چیئرمین کی رکن یاسمین لہڑی نے تمام کارروائی روک کرتحریک التواء پر بحث کی رولنگ دی ۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ زندگی میں کچھ بڑے اور مشکل دن دیکھنے پڑتے ہیں ایک وہ دن تھا جب وکلاء شہید ہوئے اور ایک وہ دن تھا جب تربت میں بیس مزدور قتل کئے گئے انہی طرح کا ایک بڑا سانحہ گزشتہ روز بھی ہوا بدقسمتی سے ہماری کئی دہائیوں تک سابق حکمرانوں کی پالیسیاں غلط رہیں ہم انتہا پسندی کا شکار رہے ۔
دوسروں کی جنگ کو اپنا سمجھ کر اس میں شامل ہوتے رہے جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا انتہا پسندی چاہے کوئی بھی ہو وہ انتہائی خطرناک ہے
بلوچستان میں اس سے ہر ایک گھرانہ متاثر ہوا ہے ملک کی اہم سیاسی قیادت دہشت گردی کا شکار ہوئی ہے مجھ سمیت بلوچستان کے اور ملک کے اہم سیاسی رہنماؤں پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں ہم نے ہر قسم کی انتہا پسندی کو ختم کرنا ہوگا ۔
انہوں نے گوادر میں مزدوروں کو قتل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر از سرنو نظر ثانی کریں اے این پی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے سانحہ مستونگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پوری
سیاسی قیادت اور اب علمائے کرام کو نشانہ بنایا جارہا ہے چالیس سال قبل جسے جہاد کہا گیا تھا ۔
ہمارے اکابرین نے اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ پرائی جنگ کا حصہ نہ بنیں یہ ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور آج پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے صرف پانچ سال کے دوران ہماری جماعت کے ساڑھے نو سو قائدین اور کارکن شہید ہوچکے ہیں ۔
اسفندیار ولی خان پر خودکش حملہ ہوا سانحہ اے پی ایس باچاخان یونیورسٹی اور مردان یونیورسٹی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں مگر آج تک کسی نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ افغانستان میں ایک واقعے پر وزیر دفاع اور آرمی کے سربراہ مستعفی ہوچکے ہیں ۔
ہم نے دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر غور کرنا ہوگا۔صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر حملے اور گوادر میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں دہشت گردی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔
ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم نے اس کو کس طرح سے روکنا ہے کیونکہ یہ نہ تو پہلا اور نہ ہی آخری واقعہ ہے دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہیں ہے مولانا عبدالغفور حیدری انتہائی شریف انسان ہیں انہیں صرف ایک بڑی شخصیت اور سیاسی لیڈر ہونے کی حیثیت سے نشانہ بنایا گیا ۔
ہم نے دوسروں کی جنگ میں شامل ہو کر غلطی کی ہمیں اپنا راستہ ٹھیک کرنا ہوگا ۔دہشت گردی سے نجات آسان نہیں مگر اس کے لئے پوری سیاسی قیادت سمیت تمام اداروں کو مل بیٹھ کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
جمعیت العلماء اسلام کی حسن بانو رخشانی نے مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ میں ہمارے کارکن اور رہنماء شہید ہوئے مگر ہم جمعیت کے پرچم تلے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ صورتحال ایسی ہے کہ اس میں ہمیں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
کیونکہ اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہم نے ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو بہتر بنا کر ان پر عمل کرنا ہے انہوں نے کہاکہ سانحہ 8اگست سے بہت پہلے میں نے اس خدشے کااظہار کیا تھا ہمارے طلبہ تعلیمیافتہ افراد سیکورٹی فورسز اور آخر میں سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔
وہ خدشات درست ثابت ہوئے ایسے واقعات کی صرف مذمت یا متاثرین سے اظہار یکجہتی سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لئے ہمیں بہت آگے جانا ہوگابدقسمتی سے ملک میں سچ بولنے پر پابندی ہے اور اگر ہم سچ نہیں بولیں گے تو حالات ٹھیک نہیں ہوں گے ۔یہ ملک قربانیوں سے ملا ہے مگر آج جل رہا ہے ہمیں ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
مجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے بدقسمتی سے ہمارے فیصلے ماضی میں ایوانوں سے باہر ہوتے رہے ایک ڈکٹیٹر کے افغانستان کی جنگ میں شامل ہونے اور دوسرے کے پرائی جنگ میں شامل ہونے کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں ۔
ایک عرب ملک کی پالیسیوں کو عوام پر لاگو کرنے کی کوششوں کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلہ وخارجہ پالیسیوں کو دوبارہ دیکھا جائے جمعیت العلماء اسلام کے مولانا عبدالواسع نے مستونگ کے سانحے کو انتہائی افسوسناک اور دلخراش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے پر پورا بلوچستان رنجیدہ ہے ہم طویل عرصے سے لاشیں اٹھارہے ہیں ۔
عوام نے ہمیںیہاں پر امن قائم کرنے اوراپنے مسائل کے حل کے لئے بھیجا ہے مگر افسوس ہے کہ یہاں پر سیاسی لیڈر محفوظ نہیں ہیں ملک مسائل کے دلدل میں پھنس رہا ہے تمام سیاسی جماعتوں نے تمام تر تحفظات کے باوجود نیشنل ایکشن پلان فوجی عدالتوں اور تحفظ پاکستان بل کی منظوری دی ۔
اس کے باوجود ہمارے حالات میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی سانحہ آٹھ اگست کے بعد ہم نے ان کیمرہ بریفنگ دینے کا مطالبہ کیا حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود آج تک یہ بریفنگ نہیں دی گئی ہمارے قائدین پر مسلسل حملے ہورہے ہیں ہم عوامی نمائندے ہیں ہم نے خود فیصلے کرنے ہوں گے دہشت گردعلمائے کرام کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر ان کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔
مگر ہماری جدوجہد ہرحال میں جاری رہے گی ۔ جمعیت العلماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے سانحہ مستونگ اور گوادر میں مزدوروں کو شہید کرنے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ایسا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو پاکستانی قوم پہلے سے زیادہ متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے مذموم مقاصد حاصل کرنے والوں کو ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔