کوئٹہ: بلوچی ادبی اکیڈمی کے زیر اہتمام میر گل خان نصیر کے 103 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے ادباء ،شعراء اور فلاسفر نے کہا ہے کہ گل خان نصیر کے فلسفے پر عمل پیراہوکر بلوچستان کو سیاسی ،سماجی ،تعلیمی اورمعاشی پسماندگی سے نکالا جا سلتا گل خان نصیر جیسے شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔
ان کی شاعری میں نوجوانوں کو مشکل حالات سے لڑنے اور اندھیرے میں اپنی منزل تلاش کرنے کی جستجو اور جدوجہد کرنے کا پیغام دیاگیا ہے ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے منیر احمد بادینی نے کہاکہ ان کی شاعری میں عالمی سطح کے شاعروں ،ادیبوں اور فلاسفروں کا پیغام ملتا ہے گل خان نصیر نے عالمی سوچ کو لوکل نام دیکر خطے کے نوجوانوں کو ظالم قوتوں کیخلاف جہد مسلسل کرنے کا حوصلہ اور ہمت دیتی ہے ۔
انہوں نے اپنے اردگردکے ماحول کو انسان دوست بنانے کیلئے عملی سیاست بھی کی اور قید و بند کی صوبتیں بھی برداشت کیے بلوچستان کی تاریخ مرتب کرکے اور بلوچی گرائمر کی کتاب لکھ کر انہوں نے آج کی اور آئندہ بلوچ نسلوں پر احسان عظیم کیا ان کی شاعری کو عالمی سطح کی شاعری کے ہم بلا قراردیا جاسکتا ہے ۔
مجھ جیسے نوجوانوں نے ان کی شاعری اور ان کی دانش سے مشکل حالات میں مایوس نہ ہونے کا پیغام پایا ہے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدیق بلوچ نے کہاکہ گل خان نصیر خطے کی عظیم شخصیت تھے مجھ سمیت بے شمار طالب علموں نے جو قید و بند کی صوبتوں سے تنگ آکر مایوسی کی دلدل میں گر چکے تھے ۔
ان کے فلسفے اور ان کی رہنمائی نے جینے کا حوصلہ دیا آج کے بے شمار نوجوان ان کی رہنمائی اور سرپرستی کی بدولت زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں گل خان نصیر ایک اچھا شاعر ،اچھا سیاستدان،اچھا ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص استاد اور سرپرست کا مقام بھی رکھتا ہے ۔
آج کے نوجوانوں کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے ان کی شاعری اور ان کے فلسفہ حیات کا مطالعہ کرنا ہو گا ،شہزادہ ذوالفقار نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ گل خان نصیر نے خطے میں عوام کی فلاح و بہبود ان کے حقوق کی آواز کو بلند کرنے کیلئے صحافت کا آغاز کیا ان کا صحافیانہ کردار رہتی دنیا تک ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔
انہوں نے جس شعبے میں قدم رکھا اخلاص اور نیک نیتی سے اس شعبے کو معتبر بنادیا ان کا فلسفہ حیات اور فلسفہ جدوجہد آج کے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہونا چاہئے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر حامد،پروفیسر رحیم مہر،سید قاسم شاہ اور دیگر نے ان کی شاعری میں چھو پے پیغام پر روشنی ڈا لی۔
بلوچی ادبی اکیڈمی کے چےئرمین عبدالواحد نے کہاکہ گل خان نصیر جیسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ان کی شاعری ان کی سیاسی جدوجہد اور ان کی ادبی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
بلوچی ادبی اکیڈمی میر گل خان نصیر جیسے قومی رہبروں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتی رہے گی اور ان کے فلسفہ حیات کوعام کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رے گی ،پروفیسر امان مینگل،شازیہ احمد ل انگو سمیت دیگر سیاسی ،سماجی ،ادبی شخصیات نے تقریب میں حصہ لیا اور میر گل خان نصیر کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔