|

وقتِ اشاعت :   May 15 – 2017

 
 
 
بلوچستان ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے وزیر داخلہ اور محکمہ داخلہ کے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا جس میں 200افراد کی قانونی بھرتی کو یک طرفہ طورپر منسوخ کردیا گیا تھا۔ یہ ملازمین محکمہ جیل خانہ جات میں قانونی ‘ آئینی اور جائز طورپر بھرتی ہوئے تھے۔
 
ان کے ٹیسٹ اور انٹرویو محکمہ داخلہ ‘ آئی جی جیل خانہ جات اور ایس اینڈ جی اے ڈی پر مشتمل افسران نے لیے تھے اور کامیاب افراد کی لسٹ 31مارچ کو مشتہر کی گئی، لیکن ایک دن بعد وزیر داخلہ نے ان بھرتیوں کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے منسوخ کردیا ۔
 
وزیر داخلہ نے سنگین الزامات لگائے اور کامیاب امیدواروں کو کام کرنے سے روک دیا ۔ وزیر داخلہ نے ان پر بے ضابطگی کا الزام بھی لگایا۔ اس پر ایک کامیاب امیدوار نائلہ خان نے محکمہ داخلہ کے نوٹیفکیشن کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ۔
 
جمعہ کے روز دو رکنی ڈویژن بنچ جو چیف جسٹس نور محمدمسکانزئی اور جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل تھا،نے اپنا فیصلہ سنایا ۔ فیصلے میں محکمہ داخلہ کے نوٹیفکیشن کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور کامیاب امیداروں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
 
مذکورہ آسامیاں پہلے 2014ء میں مشتہر کی گئیں تھیں جنہیں بعد میں منسوخ کردیا گیا ۔دیگر امیدواروں کی بھرتی کے احکامات کی منسوخی کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ نے آئی جی جیل خانہ جات جو ایک خاتون افسر ہیں ان کو عہدے سے بھی ہٹا دیا تھا ۔
 
خاتون افسر نے یہ الزام لگایا کہ وزیر موصوف غصے میں تھے کہ ان کے احکامات کے مطابق نوکریاں کیوں نہیں دی گئیں اس لیے انہوں نے یہ ساری کاروائی کی جس پر خاتون افسر نے سروسز ٹریبونل سے رجوع کیا، چند دن بعد سروسز ٹریبونل نے خاتون افسر کو اپنے عہدے پر بحال کردیا جس سے وزیر داخلہ کی سبکی ہوئی ۔اگلے چند دنوں میں سروسز ٹربونل کا بھی فیصلہ آنا ہے۔
 
اس کا انتظار ہے کہ وزیر داخلہ کے خلاف کیا فیصلہ آتا ہے ۔ حالیہ سالوں میں یہ پہلی بار ہو اہے کہ کسی محکمے میں وزیر موصوف کی مرضی کے خلاف، قانون کے مطابق امیدواروں کو میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں فراہم کی گئیں جس سے وزیر موصوف کو اپنی سبکی محسوس ہوئی ۔
 
اس سے قبل اگر حکام اعلیٰ مداخلت کرتے تو حکومت کو مجموعی طورپر سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ اس خاتون افسر کی ہر طرح سے ہمت افزائی ہونی چائیے کہ انہوں نے میرٹ کے مطابق 200کامیاب امیدواروں کو ملازمتیں فراہم کیں اور دیدہ دلیری سے اس کا دفاع بھی کیا ۔
دوسرے وزراء اور افسران اس عمل سے سبق حاصل کریں اور 35000 خالی ملازمتیں جو
پُر ہونے جارہی ہیں ان کو صرف اور صرف حقداروں کو دیں۔ بعض صوبائی اداروں میں بھی اقرباء پروری کی شکایات موصول ہورہی ہیں۔
ہم وزیر اعلیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان تمام متعصب افسران کے خلاف کارروائی کریں جو بلوچ سرزمین پر بلوچوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اقربا پروری میں ملوث ہیں ۔
 
وزیراعلیٰ پہلے تو ان کو بلائیں اوران کی سرزنش کریں اور اگر وہ باز نہ آئیں تو ان کو وزارتوں سے ہٹا دیں تاکہ 35000ملازمتیں صرف حقداروں کو ملیں اور ان میں وزراء اور افسران اعلیٰ کا کوئی حصہ نہ ہو ۔