|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2017

قلات : بلوچ رابطہ اتفاق تحریک برات کے قائد پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہیکہ سول ملٹری کے درمیان ہم آہنگی سکورٹی اداروں کی کی گزشتہ سال کے دوران امن کے لیئے اقدامات کا سول حکومت نے فائدہ نہیں اٹھا نہیں بلکہ وہ کرپشن کر رہے ہیں ۔

عوام کے لیئے ان کے پاس وقت نہیں سی پیک اور ون بیلٹ روڈ سے بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں ملکی امن اخبارات تک محدود تین بارڈر سے تنازعہ اور آر پار گولیا چل رہے ہیں ۔بلوچ قوم اور بلوچستان میں نہ روز گار نہ صحت کی سہولتیں اور نہ ہی لوگوں کی جان و مال محفوظ ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچ رابطہ اتفاق تحریک برات قلات اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے عہدیداران سے خطاب کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ ایک سال قبل امن و امن کی بہتی کے لیئے سکورٹی فورسز نے بہترین اقدامات کیئے ۔

بلوچستان کی سول بیورو کریسی پارلیمانی نمائیندوں نے ان کے اقدامات پر پانی پھیر دیئے انہوں نے کہا کہ بلوچوں کو حکومت سے کیا ملا ہے اس کا جواب نفی میں ہو گا اربوں کی دولت بلوچستان سے لے جایا جارہا ہیں ۔

بلوچوں کو کچھ نہیں ملتا بیرون ملک اقتصادی ترقی سی پیک اور ون بیلٹ روڈ سے بھی بلوچوں کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ بلوچ قوم کو کچھ نہیں ملے گا بلوچ قوم ا یک صابر اور شکر گزار قوم ہیں ۔

غربت امن و امان اور لاکھوں کی تعداد میں بے روزگاری سے نوجوان تنگ ہیں اور ان کی نظریں باہر کو دیکھ رہی ہیں وہ دعاکرتے ہیں کہ اللہ ہمارے لیئے ایک راستہ نکالے ہم تو زلیل خوار ہیں کیا ہمارے آنے والی نسلوں کی بھی حالت ایسی ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ظلم کی انتہا ء ہیں ایک سال امن ہوا مگر سول حکومت نے اس کا فائدہ نہیں اٹھا یا ان کا قصور نہیں کیونکہ طہ لوٹ مار اور کرپشن کر رہے ہیں ان کے پاس عوام کے لیئے وقت نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال ملک کے خلاف ہونے والی کاروائی کو سمجھ سکتے ہیں لیکن پچاس لاکھ بلوچ جو اس ملک کے حق میں ہیں ان کو کیا ملا سکورٹی پر اربوں خرچ کر نے کے باوجود وہ خوش ہیں کیونکہ لوٹ کسوٹ میں سب شریک ہیں مگر اللہ تعالی کا خوف ہو نا چاہئے ۔

بلوچ نا سمید ہو چکے ہیں انہوں نے کہا کہ امن امان کے بارے میں دعواے اخباری بیانات توآرہے ہیں مگر امن کی یہ صورتحال ہیں کہ تین بارڈر سے تنازعات چل رہے ہیں اور آر پار گولیا چل رہے ہیں ۔

تین صوبوں میں آپریشن ہورہی ہیں اس کی وجہ ملک میں قیادت نہیں سول اور فوجی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے یہ پہلی مثال ہے ایک کرسی پر دو حکمران بیٹھے ہیں۔