بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ ایران کے موقع پر ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے منصوبے پرگزشتہ روزتہران میں دستخط کر دیئے ہیں۔
جبکہ ایران ، افغانستان اور تاجکستان کو سڑکوں کے ذریعے منسلک کرنے کے ایک معاہدے پر بھی دستخط ہوئے جس میں افغان صدر اشرف غنی بھی موجود تھے۔
گوادر سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ایرانی صوبہ بلوچستان کے علاقے سیستان میں چاہ بہار کی بندرگاہ واقع ہے۔اس بندرگاہ کوترقی دینے کا خیال 2003ء میں واجپائی کے دور میں سامنے آیا تھا۔مگر پہلے خطے کی صورتحال اور بعد ازاں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اس کی راہ میں حائل ہو گئیں۔
یہ بات بھی باعثِ حیرت ہے کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی قرار داد میں انڈیا نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھامگر حالات وقعات نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو چھ ارب ڈالر سے زائد ایران کے وہ واجبات تھے جو انڈیا نے تیل کے بدلے ادا کرنے تھے جس کی ادائیگی انڈیا نے روک رکھی تھی اب اس معاہدے سے پہلے وہ رقم ایران کو ادا کر دی گئی ہے۔ دوسری وجہ ایران کی وہ کاوشیں ہیں جو وہ اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے کر رہا ہے۔
اس منصوبے کو انڈیا نے North۔South Transport Corridor (NSTC) کا نام دیا ہے۔ جس کے ذریعے بلقان کی ریاستوں سے ہوتے ہوئے یورپ تک رسائی ممکن بنائی جائے گی جس سے انڈیا اور یورپ کا درمیانی فاصلہ 60 فیصد تک کم ہو جائے گا۔
جب گزشتہ سال چینی صدر زی جنپنگ نے پاکستان کے ساتھ گوادر بندرگاہ سمیت 46 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کئے توبھارت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جس کے فوراً بعد بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نیتن گدکاری ایران گئے اور وہاں چاہ بہار بندرگاہ بنانے کے بارے میں ایک مفاہمی یادداشت پر دستخط کر دیئے۔جس کو مودی کے حالیہ دورہ ایران میں عملی شکل دے دی گئی ہے۔
چاہ بہار اور بھارتی بندرگاہ کنڈلا کا درمیانی فاصلہ 550 ناٹیکل میل ہے جوکہ دہلی اور ممبئی کے درمیانی فاصلے سے بھی کم ہے۔بھارت کی خوشی اس لئے بھی دیدنی ہے کہ اسے اب ایران اور افغانستان جانے کے لئے پاکستان کی محتاجی نہیں رہی۔ چاہ بہار کو انڈیا اپنے جغرافیائی مفادات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔
ایک طرف اسے پاکستان کے بجائے ایران ، افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک رسائی مل گئی ہے تو دوسری جانب گوادر کے بالکل ساتھ اس نے اپنی موجودگی یقینی بنا لی ہے ۔یہی نہیں بلکہ چاہ بہار میں فری ٹریڈ بنانے کے لئے بھارت سو کروڑ روپوں کی سرمایہ کاری بھی کرے گا۔
جہاں پر بھارت یوریا کھاد اور ایلومینم بنانے کے کارخانے بھی لگائے گا جس سے اسے ایرانی گیس سے سستی کھاد بنانے میں مدد ملے گی۔چاہ بہار میں جاپان بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں ایران اور جاپان کے مابین فروری میں ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے ۔
جس کے تحت ایران میں سرمایہ کرنے والی جاپانی کمپنیوں کو 10 ارب ڈالر کی گارنٹیاں فراہم کی جائیں گی۔ چاہ بہار کو افغانستان اور تاجکستان سے منسلک کرنے کے لئے بھارت مزید سڑکوں کا نیٹ ورک بنانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے وہ مشہد اور زاہدان کے درمیان 900 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بھی بنائے گا۔
اس منصوبے کو انڈیا نے North۔South Transport Corridor (NSTC) کا نام دیا ہے۔ جس کے ذریعے بلقان کی ریاستوں سے ہوتے ہوئے یورپ تک رسائی ممکن بنائی جائے گی جس سے انڈیا اور یورپ کا درمیانی فاصلہ 60 فیصد تک کم ہو جائے گا۔
گوادر سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ایرانی صوبہ بلوچستان کے علاقے سیستان میں چاہ بہار کی بندرگاہ واقع ہے۔اس بندرگاہ کوترقی دینے کا خیال 2003ء4 میں واجپائی کے دور میں سامنے آیا تھا۔مگر پہلے خطے کی صورتحال اور بعد ازاں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اس کی راہ میں حائل ہو گئیں۔
ایران،سعودی عرب کے مقابلے میں ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر خود کو منوانا چاہتا ہے بالخصوص معاشی پابندیوں کے عہد میں اس کی معیشت کو جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔
ایک طرف اس نے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے تو دوسری جانب چین کے ساتھ بھی ریلوے کے ذریعے تجارت کا آغاز کر دیا ہے۔اس سلسلے میں پہلی تجارتی ٹرین چین سے ایران 10399کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے 14 دنوں میں تہران پہنچ چکی ہے۔
ایران اور چین کی باہمی تجارت جو 2003ء4 میں 4 ارب ڈالر سالانہ تھی وہ 2013ء4 میں بڑھ کر 53 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔جنوری میں چینی صدر کے دورہ ایران کے دوران اس تجارت کو بڑھا کر اگلے دس سالوں میں 600 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا۔
چین چابہار اور گوادر دونوں کو استعمال میں لانا چاہتا ہے۔اور نسبتاً ایک کھلی منڈی پر یقین رکھتا ہے جہاں سب کو اپنی اپنی قسمت آزمائی کا برابر موقع ملے۔کیونکہ چین دنیا میں یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس مقابلے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
اس لئے وہ چاہ بہار کو بھی اسی پس منظر میں دیکھتا ہے لیکن اسے پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی کا بھی بخوبی ادراک ہے اس لئے یہ چینی ڈپلومیسی کا بھی امتحان ہے کہ وہ گوادر اور چاہ بہار کی سیاست میں اپنا مقام کہاں پر رکھتا ہے۔
چاہ بہار اور بھارتی بندرگاہ کنڈلا کا درمیانی فاصلہ 550 ناٹیکل میل ہے جوکہ دہلی اور ممبئی کے درمیانی فاصلے سے بھی کم ہے۔بھارت کی خوشی اس لئے بھی دیدنی ہے کہ اسے اب ایران اور افغانستان جانے کے لئے پاکستان کی محتاجی نہیں رہی۔
پاکستان چاہ بہار میں بھارتی موجودگی کو اپنی سالمیت کے خلاف گردانتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ گزشتہ عرصے میں ایک بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری ہے جس کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزا موجود تھا۔
اگلے ڈیڑھ سال میں چا ہ بہار میں جہازوں کی آمد و رفت شروع ہونے ہے جبکہ تقریباً اتنے ہی عرصے میں گوادر کو بھی فعال ہو نا ہے۔گوادر میں ابھی چین کے سوا کسی دوسرے ملک نے سرمایہ کاری کا عندیہ نہیں دیا جبکہ ایران ،بھارت کے ساتھ ساتھ چین اور جاپان کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔
چا ہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری خلیجی سیاست پر بھی اپنے اثرات مرتب کرے گی کیونکہ مودی اپنے گزشتہ دورہ سعودی عرب اور دورہ عرب امارات میں بھی اربوں ڈالر کے معاہدے کر چکے ہیں جن میں عرب امارت کے ساتھ 76 ارب ڈالر اور سعودی کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی شامل ہیں۔
انڈیا کے تقریباً 70 لاکھ سے زائد لوگ خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کئے ہوئے ہیں جن سے انڈیا کو سالانہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات چونکہ خاصے کشیدہ ہیں اس لئے وہ کسی طور پر انڈیا سے خوش نہیں ہو گا کہ وہ بڑھ چڑھ کر وہاں سرمایہ کاری کرے۔نہ ہی امارات چاہے گا کہ چاہ بہار فعال ہو کر دوبئی کے مقابلے پر آجائے۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی مثالی نہیں رہے۔پاکستان میں مسلکی جنگ کی وجہ سے ایران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک مسلک کی حمایت کرتی ہے جبکہ پاکستان کو بھی ایران سے یہی شکایت ہے۔
پاک ایران گیس لائن اور بجلی کے منصوبے بھی اپنی تکمیل کی راہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ بہرحال اس حوالے سے پاکستان امریکی اور سعودی دباؤ کی زد میں ہے۔ان حالات میں چاہ بہار میں انڈیا کی موجودگی سے پاک ایران تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے جس سے پاکستان میں مسلکی تنازعات بھی زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے چین نے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے مگر ابھی تک دونوں جانب سے یہ منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔
جس کی ایک وجہ تو پاکستان کی اس روایتی افسر شاہی کی نااہلی ہے جو ترقیاتی بجٹ بھی پوراخرچ کرنے کی ااہلیت نہیں رکھتی اس لئے اتنے بڑے منصوبوں کی تکمیل کی امید کیسے وابستہ کی جا سکتی ہے۔
دوسری وجہ پاکستانی فوج اور حکومت کے مابین راہداری سمیت کئی معاملات میں باہمی اختلافات بھی ہیں جس سے منصوبے کی بر وقت تکمیل کے بارے میں خدشات جنم لے چکے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ چاہ بہار اور گوادر کے منصوبے پہلے سے موجود تنازعات کو مزید گہرا کرتے ہیں یا پھر ان تنازعات کے حل کی کوئی راہ نکالتے ہیں۔اس کا فیصلہ وہ وقت کرے گا جس کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔