کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے سرحدی علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں افغان فورسز کی جارحیت کے خلاف قرار داد رائے شماری کے بعد اکثریت رائے سے منظور کرلی۔
جمعہ کے روز بلوچستا ن اسمبلی کا اجلاس پینل چیئرمین یاسمین لہڑی کی صدارت میں شروع ہوا جے یو آئی کی رکن اسمبلی شاہدہ رؤف نے مذمتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہمسایہ ملک افغانستان کی جانب سے بھارتی ایماء پر پاکستان کے سرحدی علاقوں کلی لقمان، کلی جہانگیر میں معصوم اور نہتے شہریوں اور فورسز کے جوانوں پر حملہ کیا گیا جو کھلی جارحیت ہے ۔
جس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہواایوان اس واقعہ کی نہ صرف پر زور مذمت کر تا ہے بلکہ پاک فوج کو افغان بارڈر فورس کی دراندازی کا منہ توڑ جواب دینے پر خراج تحسین پیش کر تا ہے اور ملک کے عوام اس موقع پر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔
مذمتی قرارداد پر شاہدہ روف نے مزید کہا کہ یہ قرارداد ایوان کے پہلے سیشن میں آرہی تھی لیکن بد قسمتی سے مستونگ کا واقعہ پیش آیا اس کی وجہ سے قرارداد میں تاخیر ہوئی ۔
انہوں نے کہا کہ ہر جگہ پر بیرونی مداخلت جاری ہے کبھی مستونگ میں دہشتگردی کا واقعہ ہو تا ہے تو کبھی گوادر اورکبھی تربت میں لو گوں کو نشانہ بنایا جا تا ہے بارڈر غیر محفوط ہے عسکری اور سیاسی قیادت معاملات کو ٹھیک کرنے لئے افغانستان گئی جمعیت علماء اسلام مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔
لیکن مذاکرات ہونے کے باوجود اس طرح واقعات رونما ہونا ہمارے لئے باعث شرم ہے خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔
مردم شماری کو ایک منصوبے کے تحت نشانہ بنایا آج خوشی کی بات ہے کہ دوبارہ مردم شماری ہوئی ان اساتذہ اور فورسز کے اہلکارکو مبارکباد پیش کر تے ہیں ۔
جنہوں نے دوبارہ کلی جہانگیر اور کلی لقمان میں مردم شماری میں حصہ لیا اور سروے سے معلوم ہوا کہ دونوں گاؤں پاکستان کا حصہ ہے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کی ضرورت ہے ۔
مشیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے کہا ہے کہ افغان بارڈر پر جو بھی واقعہ ہوا اس پر افسوس ہے مگر شروع دن سے ملک میں جو پالیسی چل رہی ہے ناکام پالیسی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو تے ہیں رشتے بدل جائینگے لیکن ہمسایہ نہیں بدلیں گے ۔
افغانستان کی حالت اب بھی خراب ہے اور آدھا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے افغانستان کے لوگ ہمارے بھائی ہیں تمام تر حالات کو مذاکرات کے ذریعے ٹھیک کیا جائے ۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہاکہ دونوں طرف سے نقصان ہوا ہے اور ہم مذمت کر تے ہیں حالات کو اس وقت کنٹرول نہیں کیا جب 78 میں افغانستان میں انقلاب آیا تو سیاسی ومذہبی جماعتوں نے یہا ں ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دے کر40 لاکھ افغانوں کو بے دردی سے شہید کیا ماضی میں بھی خارجہ پالیسی نہیں تھی اور آج بھی خارجہ وزیر نہیں ہے ۔
اگر خارجہ وزیر ہوتا تو آج ملک کی یہ صورتحال نہ ہوتی پالیسی وزیراعظم سیکرٹریٹ سے نہیں بلکہ کسی اور جگہ سے بنتی ہے.
صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ آج کل ملک میں خارجہ پالیسی پر بحث کی جاتی ہے اور خارجہ پالیسی کو ٹھیک کر نا چا ہئے اس ملک میں جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور28 سال تک ملک میں ڈکٹیٹر شپ کا دور رہا جو ڈکٹیٹر سے مراعات لے رہا تھا وہ سب کو معلوم ہے ۔
ماضی میں جس جنگ کو جہاد کر رہے تھے آج وہ خود اس جنگ کو فساد کہہ رہے ہیں اگر ہم خود آزاد ہے تو دوسرے کو بھی آزاد سمجھیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہونی چا ہئے اور تمام تر مسائل کا حل مذاکرات ہے جب مذاکرات نہیں ہونگے تو معاملات بہتری کی طرف نہیں جائینگے۔
جہاں فوج سرحدات کی حفاظت کے لئے رکھتے ہیں اور سیاسی قیادت کے فیصلے کے بعد جو کام سونپا جا تا ہے وہ فوج کریگی فوج پارلیمنٹ کے ماتحت ہے، ۔
انہوں نے کہا ہے کہ جو واقعہ ہوا اس بارے وفاق نے حکومت سے نہیں پوچھابعد میں قرارداد پر رائے شماری ہوئی، نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اور ایوان میں موجود مسلم لیگ(ن) کے رکن غلام دستگیر بادینی نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ پشتونخوامیپ کے اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیاجس کے بعد قرارداد منظور کرلی گئی۔