|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2017

بلوچستان میں صوبائی حکومتوں کی تاریخ کو اب 45 سال ہوچکے ہیں اس تاریخ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ آج تک کوئی ایک سیاسی جماعت صوبائی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت نہیں بنا سکی ۔

جب بھی حکومت بنی وہ مخلوط حکومت رہی اس لیے عموما یہ حکومتیں تعمیر وترقی اور سیاسی عمل میں مضبوط اور مستحکم انداز میں فیصلہ سازی کی قوت سے محروم رہیں اور ان مخلوط حکومتوں کے وزاراعلیٰ حکومت کے پورے دورانیے میں اپنے عہدے کو بچانے کے لیے اراکین اسمبلی کو مناتے سمجھاتے رہتے تھے ۔

یوں ترقیاتی فنڈزتو خرچ ہوتے رہے مگرپائیداراور مستحکم ترقی نہ ہوسکی اور عوامی مسائل ومشکلات میں تہہ در تہہ اضا فہ ہوتا رہا اور کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوتی رہیں حالیہ صوبائی حکومت اس اعتبار سے بہت منفرد ہے کہ یہ چار سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکو مت ہونے کے باوجود پائیدار ترقی کے ایجنڈے پر متفق ہے ۔

ان سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں حصہ داری کوبھی چار برسوں سے خوش اسلبوبی سے نبھایا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے عہدکو بھی ڈھائی ڈھائی برسوں کے لحاظ سے تقسیم کیا اور پہلے ڈھائی سال ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ وزیر اعلیٰ رہے اور پھر اب گذشتہ تقریبا ڈیڑھ سال سے نواب ثنا اللہ زہری وزیر اعلیٰ ہیں اور صوبے کی تعمیر و ترقی کے اعتبار سے وہ یوں زیادہ اہم نظر آتے ہیں ۔

انہوں نے نہ صرف خود بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کئے ہیں بلکہ جن منصوبوں کے اعلانات ڈاکٹر عبد لمالک بلوچ نے کئے تھے ان کی تکمیل بھی ان کے دور میں ہو ر ہی ہے ۔

نواب ثنا اللہ زہری مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ ٰشہباز شریف کے بعد رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان وزیر اعلیٰ ہیں یوں وہ جماعتی لیڈر شپ کے اعتبار سے بھی اہم ہیں اورپھر سی پیک منصوبے کے حوالے سے بھی یوں نواب ثنا اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بنے ابھی چند روزہی ہوئے تھے کہ وہ سی پیک پر ہونے والے ان تمام اجلاس میں شریک ہوتے رہے جن میں بلوچستان کو سی پیک کے مغربی روٹ کے اور دیگر حوالوں سے خدشات تھے ۔

ان اجلاس میں انہوں نے اہم کردار اداکیاپھر جب سی پیک اور گوادر کے مکمل طور پر فعال ہونے کا باقاعدہ افتتاح ا س وقت ہوا جب پہلی مرتبہ 300 سے زیادہ کنٹینر قافلے کی صورت چین کے علاقے کاشغر سے ہوتے ہوئے خنجراب سے پاکستان میں داخل ہوئے اور پھر ایبٹ آباد ،حویلیاں، ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان میں داخل ہوئے اور پھر سے ژوب ،کوئٹہ ،خضدار ،تربت ہوتے گوادر پہنچے اور یہاں سے 13 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نوازشریف ،سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف اور دیگر وفاقی وزرا ،اور اہم چینی مہمانوں کی میزبانی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے یہاں سے اس سامان کو چینی بحری جہازوں پر لوڈ کر وا کر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کو بھجوایا گیا ۔

اس کے بعد یکم جنوری کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ نے کابینہ کے اجلا س میں صو بے میں عرصے سے خالی 25 ہزار اسامیوں پر فوری بھرتی کے احکامات صادر کئے مگر افسر شاہی کی سست رفتاری کی وجہ سے اس پر اتنی تیز رفتاری سے کام نہیں ہوسکا جس کی وہ توقع کرہے تھے ۔

اس سال بلوچستان کے دو چیف سیکر ٹری تبدیل ہوئے اور اب نئے چیف سیکر ٹری نے اس تاخیر پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور بھرتی کی رفتار کو وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تیز کرنے کا حکم دیا ہے اس سال یکم جنوری ہی کو انہوں نے گوادر میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کے اندیشوں کے پیش نظر اس خدشے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضروت پر زور دیا ۔

جب کہ وہ گوادر ڈیپ سی پورٹ اور سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہوئے 27 دسمبر سے 29 دسمبر2016 کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی سربراہی میں وفد کے ہمراہ چین کے شہر بیجینگ میں منعقد ہونے والے جے سی سی کے اہم فورم کے اجلاس میں بلوچستان کی خاص اہمیت کے ساتھ شریک ہوئے۔

وہاں پاکستان کی مجموعی ترقی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی پسماندگی کے تناظر میں یہاں زیادہ توجہ کے اعتبار سے معاملات اٹھائے اور سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے بلوچستان کے حقوق کا بہت بہتر انداز میں دفاع کرتے ہوئے صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں کامیاب رہے بیجنگ کے جے سی سی فورم کے چھٹے اجلاس میں پاکستان کے لیے کل 30 ترقیاتی منصوبوں کی حتمی منظوری دی گئی تھی ۔

جن میں سے انہوں نے صوبے کے لیے 12 منصو بے حاصل کئے اس اجلاس میں سی پیک کا منصو بہ جو پہلے 46 ارب ڈالر کا تھا اس کا ہجم بڑھا کر اسے54 ارب ڈالر کر دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عنقریب سی پیک کا یہ منصوبہ 60 ارب ڈالر کا ہوجائے گا بیجنگ کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری نے جو منصوبے بلو چستان کے لیے حاصل کئے ہیں ۔

ان میں کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین کا 25 ارب روپے کا منصوبہ ،نوکنڈی ،ماشکیل ،پنجگور،شاہراہ جسے این 85 سے ملا دیا جائے گا اس منصوبے پر بھی 25 ارب روپے کی لاگت آئے گی 40 ارب روپے کا کوئٹہ کو پانی سپلائی کرنے کا منصوبہ جس کے تحت کو ئٹہ کو پٹ فیڈر نہر سے پانی سپلائی کیا جا ئے گا۔

ان ہی منصوبوں میں اہم منصوبے 110.5 کلو میٹر شاہراہ خضدار،بسیمہ 210 کلو میٹر طویل شاہراہ ژوب ڈیرہ اسماعیل خان کی اپ گریڈیشن گوادر بندرگاہ میں پانچ اضافی برتھوں کی بمعہ بریک والڈ کی تعمیر اور ڈریجنگ،گوادر بندر گاہ کو نئے ایر پورٹ سے منسلک کرنے کے لیے ایسٹ بے ایکپریس وے فیز ٹو کی تعمیر ،باؤل سٹیل پارک کی تعمیر گوادر فری ز ون میں فوٹونآٹو موبائل پلانٹ کی تنصیب جیسے منصوبے شامل تھے اور اب ان میں سے بہت سے منصوبوں پر ترقیاتی کام جاری ہیں اور تیزی سے تکمیل کے مر احل طے کررہے ہیں ۔

یہ وہ منصوبے ہیں جن کے مکمل ہونے سے صوبے میں یہاں کی تقریبا ایک کروڑ عوام کو تبدیلی واضح انداز میں نہ صرف نظر آئے گی بلکہ ان ترقیاتی منصوبوں کے مکمل ہونے پر بلو چستان کے عوام ان کے ثمرات سے بھی مستفید ہو سکیں گے ۔

بلوچستان جو کم اور بکھری ہوئی آبادی کا او ر رقبے کے اعتبار سے ایک وسیع صوبہ ہے یہاں کے مسائل ملک کے دوسرے علاقوں سے اپنی خاص نوعیت کے لحا ظ سے بہت مختلف ہیں ،مثلا پانی کے مسائل جن میں آب نوشی ،اور آبپاشی کے مسائل شدید نوعیت کے ہیں اور ان مسائل کو اس بار یعنی 3 مئی 2017 کو وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری نے اٹھائے ان میں پانی کے مسائل اہم بھی ہیں اور عجیب وغریب بھی بلوچستان ایک جانب ضلع لسبیلہ میں حب ڈیم سے کراچی کی آدھی آبادی کو پینے کا پانی فراہم کرتا ہے ۔

دوسری جانب بلو چستان کے دو اہم ترین شہر صوبائی دارالحکو مت کوئٹہ اور گوادر پینے کے پانی کی شدید قلت کا شکا ر ہیں کوئٹہ کی آبادی اب اندازا 25 لاکھ بتائی جاتی ہے یہاں زیر ے زمین پانی بارہ سو فٹ تک نیچے گر چکا ہے ولی تنگی اور اوڑک کے چشموں کے پانی کی مقدار نہ صرف بہت کم ہوگئی ہے بلکہ اب یہ پانی ایک ڈیڑھ لاکھ آبادی کی ضرورت ہی پوری کر سکتا ہے ۔

وزیر اعلیٰ نے اس جانب فوری تو جہ دی اور ایک طرف تو 40 ارب روپے کے اس منصوبے کے لیے دس ارب روپے صوبائی بجٹ مالیاتی سال 20016-17 میں جاری کردئے جس کے تحت کو ئٹہ کو تین سال بعد اس منصو بے کے مکمل ہو نے پر نصیر آباد اور جعفرآباد تک دریائے سندھ سے آنے والی پٹ فیڈر نہرسے پانی سپلائی کیا جائے گا ۔

یہ منصوبہ بہت اہم اور ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے لحا ظ سے منفرد ہو گا اس منصوبے کے تحت سبی کے بعد بولان کے پہاڑی سلسلے میں پٹ فیڈر نہر کا پانی ساڑھے چھ ہزرافٹ پر کو ئٹہ سے نزدیک کولپور کے مقا م پر لایا جائے گا اور پھر سطح سمندر سے 5500 فٹ کی بلندی پر واقع ؑ شہر کوئٹہ کو یہاں پر ایک ہزار فٹ کی ڈھلوان اور پریشر سے سپلائی کیا جائے گا یہ منصوبہ تین برسوں میں مکمل ہو گا اور اس بار 3 مئی کو ہونے والی مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں اس جانب بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری نے تو جہ مبذ ول کر وائی ہے کہ بلو چستان کو دریائے سندھ سے اس کے حصے سے کم پانی ملا رہا ہے اور اس کا پورا حصہ دیا جائے۔

کوئٹہ کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نے 10 اپریل 2017 کو کوئٹہ سے 85 کلو میٹر کے فاصلے پر مانگی ڈیم کا سنگ بنیاد بھی رکھا ہے اس ڈیم کی تعمیر پر 9.334 ارب روپے کی لاگت آئے گی اور یہ تین سال میں مکمل ہو گا اس کے مکمل ہونے کے بعد اس ڈیم سے روزانہ کوئٹہ کے شہریوں کو 8.1 ملین گیلن پانی فراہم ہوگا۔

یہ وہ ترقیاتی منصوبے ہیں جن کے تکمیل کو پہنچنے سے نہ صرف بلوچستان کے آبادی کے لحاظ سے بڑے شہر کوئٹہ اور اسکی 25 لاکھ آبادی کو اجڑ نے اور شہر کو ویران ہونے سے بچا لیا جائے بلکہ بلوچستان میں ہونے والے سب سے بڑے انسانی المیہ کو رونما ہونے سے قبل ہی ختم کردیا جائے گا۔

ماس ٹرنزٹ ٹرین کے منصوبے کا پی سی ون اور فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کے ساتھ ابتدائی رقوم بجٹ میں رکھ د ی گئی تھی یہ ٹرین کچلاک اور سپیزنڈ کے درمیان چلائی جائے گی اور اس منصوبے کی اصل اور بڑی رقم سی پیک منصوبے سے آئے گی واضح رہے کہ یہاں پہلے ہی سے براڈ گیج ریلوے لائن مو جود ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو دائر ے کی صورت میں کوہ مردار اور بروری کے پہاڑ کے دامن میں ایسٹر ن،، مشرقی ،،اور ،،ویسٹرن ،،مغربی بائی پاس کے ساتھ ساتھ نیا ٹریک بچھا کر کچلاک ،بلیلی ، شیخ ماندہ، کوئٹہ ،سریاب اور سپیزنڈ کے ریلوے اسٹیشنوں سے منسلک کر دیا جائے ۔

واضح رہے کہ اس پورے علاقے میں آبادی 30 سے 35 لاکھ ہے اور اس لو کل ماس ٹرین کے چلنے سے جہاں اس پوری آبادی کو ہر طرح سے محفوظ اور سستے سفر کی سہولت میسر آجائے گی وہاں کم از کم پچاس ہزار افراد کو خود روزگار کی بنیادوں پر روزگار کی سہولتیں میسر ہونگی کیونکہ اس کی مدد سے نہ صرف ہزار گنجی میں پھلوں اور سبزیوں کی منڈی سے بہت کم کرائے پر سبزیاں اور پھل اور مال موشی کوئٹہ ،کچلاک تک پہنیں گے اور ان کی قیمتوں میں کمی آئے گی بلکہ کچلاگ تک کھانے کے جو ہوٹل وغیرہ ہیں۔

اس طرح کے کاروبار میں کئی گنا اضافہ ہوگا تو دوسری جانب ان علاقوں میں سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوجائے گا جس سے فضائی آلودگی کے مسئلے پر بھی کافی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔ صوبائی دارلحکومت کوئٹہ جس کو اس کی صحت افزا فضا اور ماحول اور خوبصورت طرز تعمیر کی وجہ سے لٹل پیرس اور لندن کہا جاتا تھا ۔

اس وقت یہ شہر دنیا کے گندے اور آلود ترین شہروں میں شامل ہے ماضی قریب تک اس شہر کے حسن کی بحالی کے نام پر ماضی کی حکومتوں نے اربوں روپے برباد کئے مگر کوئٹہ کو اس کا حسن واپس نہ لو ٹا سکے نواب ثنا اللہ زہری نے وزیر اعلیٰ بنے کے فورا بعد یہ اعلان کیا تھا کہ کو ئٹہ دوبارہ خوبصورت بنا یا جائے گا اور بجٹ مالی سال 2016-17 میں ایک خطیر رقم اس کے لیے رکھی گئی تھی۔

اس بار جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں تو پہلی بار کوئٹہ کے شہری یہ دیکھ رہے تھے کہ پورے شہر میں سڑکوں کے کنارے تجاوز کئے گئے تھڑوں ،چبوتروں کی توڑ پھو ڑ جاری ہے اور بلا شبہ ان کی مجموعی لاگت 30 سے 40 کروڑ ہے ایسی کوششیں پہلے بھی کی جاتی تھیں جس کے مقابلے میں پورے شہر کے دکاندار احتجاج کرتے تھے جلسے جلوس ہوتے تھے اور حکومت کو اپنی قانونی اور جائز کاروائی ان کے دباؤ کی وجہ سے روک دینی پڑتی تھی مگر اس بار نواب ثنااللہ زہری نے وہ کر دیکھا جو ماضی میں ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔

اس کے ساتھ ہماری بار بار کی تجویز پر بھی اس بار عملد آمد کیا گیا ہے اور کوئٹہ کی سڑکوں کی تعمیر کے لیے پہلے پرانی پچھائی گئی بجری اور تارکول اکھیڑ کر نئی صاف بجری اور تارکول ڈال کر سڑکیں بنائی جارہی ہیں جن کی وجہ سے اب جب تھڑوں کے ٹوٹنے اور ایسی نئی سڑکوں کے بنے کے بعد جب ناکاسی آب کی نالیوں کی تعمیر مکمل ہوگی تو شہر میں ناسی آب کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جا ئے یوں ان ترقیاتی منصوبوں کو دیکھا کر انداز ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کے یہ ترقیاتی منصوبے مستقبل میں ایک عمدہ اور تاریخی مثال ثابت ہونگے ۔

آٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان کو سب سے زیادہ توجہ پرونشنل ڈیزازٹرمینجمنٹ اتھا رٹی کے قیام اور اس کے فعال کرنے پر تھی کیونکہ قدرتی آفات کی زیادتی اور پھیلاؤ رقبے کی بنیاد پر ہی ہوتی اور پھر بلو چستان میں تنوع بھی زیادہ ہے ۔

یعنی بلوچستان کے پاس ملک کے کل ایک ہزارکلو میٹر طویل ساحل میں سے 777 کلو میٹر ہے اب اگر خدانخواستہ سمندری طوفان آتا ہے تو اس سے کے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کو کوئی خطرہ نہیں اور سندھ کے مقابلے بلوچستان کو سونامی یادیگر سمندری طوفانوں کے اندیشے 75% زیادہ ہیں ۔

اس بار صوبائی حکومت نے اس جانب توجہ دی اور اب صوبائی سطح پر پرونشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی صو بے کے تمام اضلاع میںیہ کسی بھی قدرتی آفات یعنی زلزلے ،سیلاب ،طوفان خشک سالی کی صورت میں ہنگامی بنیادوں پر فوری طور پر امدادی کاروایاں کرسکتی ہے اور اس شعبے کو وزیر اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری ہی کے دور اقتدار میں فعال کیا گیا۔

22 اپریل 2017 ء بلوچستان صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے ایجو کیشن انڈومنٹ فنڈز میں دو ارب روپے کا اضافہ کرکے اسے 6 ارب روپے سے 8 ارب روپے کرنے کے علاوہ ماس ٹرانزٹ ٹرین اور گرین بس اتھارٹی کی منظوری بھی دی اس کے چار دن بعد 26 اپریل2017 کو بلوچستان میں تعلیم پروگرام کے تحت تین ہزار اساتذہ کی تربیت کا فیصلہ کیا۔

یوں بلوچستان میں ان منصوبوں کے علاوہ بہت سے دیگر منصوبے اپنے بھی اپنے پروگرام اور ٹائم فریم کے مطابق مکمل ہورہے ہیں ، اور ترقیاتی کاموں کی اس رفتار سے اندازہ ہوتا ہے بلو چستان کے صوبائی بجٹ مالی سال 2016-17 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو 71.182 ۔ارب روپے مختص کئے گئے تھے ان سے یہ تمام ترقیاتی منصوبے مقررہ مدت میں اور معیا ر کے مطابق مکمل کر لیے جائیں گے۔