کوئٹہ : بلوچستان میں چار سال سے نافذ تعلیمی ایمرجنسی سود مند ثابت نہ ہوسکی کہیں سیاسی بنیادوں پر قائم اسکولز بیٹھک بنائے جاتے ہیں تو کہیں عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی کے باعث تعلیمی فنڈز کا ،اجراء ممکن نہیں ہوتا، بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں تعلیمی صورتحال کی بہتری کیلئے مالی سال 2016۔17اور مالی سال2015۔16کے جاری تعلیمی ترقیاتی اسکیمات کیلئے مجموعی طور پر مختص ہونے والے 16کروڑ روپے سے زائد رقم میں صرف سات کروڑ روپے جاری کئے جاسکے ۔
حکومتی عدم سنجیدگی کے باعث سینکڑوں بچیاں اسکولوں کو خیرباد کہنے لگے۔ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کا شمار گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیمی سال کے اوقات کار کا صوبے کے دیگر اضلاع سے مختلف ہیں ضلع جعفر آباد بھی ان ہی گرم علاقوں کی طرح ہے جہاں ترقیاتی کاموں موسم سال بھر بہتر رہتا ہے اور گرم ترین علاقہ ہونے کے باعث اسکولوں میں سہولیات انتہائی ناگزیر ہیں ۔
جو بدقسمتی سے فراہم نہیں کئے جاتے ہیں، ضلع جعفرآباد کے لئے سال 2016۔17ء4 کے سیکنڈری تعلیمی ترقیاتی بجٹ میں تقریبا 9کروڑ 28لاکھ 37ہزار روپے (92837000) مختص کیے گئے ہیں جب کہ مالی سال 2015۔16کے جاری ترقیاتی اسکیمات کیلئے 6کروڑ 98لاکھ 19ہزار (69819000 )تھے ، مالی سال 2016۔17کیلئے مختص کئے گئے بجٹ اور جاری اسکیمات کیلئے مختص رقم مجموعی طور پر 16کروڑ 26لاکھ 56ہزار ( 162656000 ) بنتی ہے مالی سال ختم ہونے کے قریب ہے ۔
لیکن بلوچستان حکومت کی جانب سے مختلف ترقیاتی مدمیں 7کروڑ1لاکھ19 ہزار کے قریب فنڈز کا اجراء4 کیا گیا اور 9 کروڑ25 لاکھ سے زائد رقم کا اجراء4 تاحال نہیں ہوسکاجس کے باعث سینکڑوں سکولوں میں جاری ترقیاتی کام مکمل ہوسکے اور نہ ہی ایک کمرہ ایک استادپر مشتمل اسکولوں کیلئے چار دیواری اور دیگر سہولیات فراہم کیئے جاسکے ایک اعداد شمار کے مطابق ضلع جعفر آباد میں بیشتر گرلز اسکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کے باعث 68فیصد اسکولوں سے باہر ہیں۔
ضلع جعفر آباد کیلئے گزشتہ سال شیلٹر لیس اسکولوں کیلئے 1کروڑ روہے مختص کیا گیا تھا جبکہ مالی سال2016۔17ء4 کے بجٹ میں 1کروڑ دس لاکھ مختص کئے گئے،، مختص ہونے والے بجٹ میں 7 شیلٹر لیس اسکولوں کیلئے 2کروڑ دس لاکھ روپے فراہم کئے گئے جن میں 6بوائز اسکولوں اور صرف ایک گرلز اسکول بنایا جارہا ہے۔
جعفر آباد کے تحصیل اوستہ محمد گنداخہ میں مالی سال 2016۔17کے دوران 5 کروڑ چالیس لاکھ روپے 96 مختلف پرائمری اور مڈل اسکولز میں ایڈیشنل کلاس رومز بنائے جارہے ہیں جن کا کام تکمیل کے مراحل میں ہیں، ضلع میں پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے ہونے والے ترقیاتی کاموں پر نظر دوڑائی جائے۔
5کروڑ 40لاکھ روپے کی لاگت سے ہونے والے کاموں میں 2کروڑ چالیس لاکھ روپے ماضی کے بجٹ میں رکھے گئے فنڈز سے ترقیاتی کاموں کو مکمل کیا گیا اور بدقسمتی سے ترقیاتی مد میں اور اسکولوں کی اپ گریڈیشن کیلئے جتنے فنڈز مختص کئے گئے اس دوران محکمہ تعلیم کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا اور ماضی میں بھی ڈیپارٹمنٹ کو فنڈز کے اجراء میں شامل نہیں رکھا جاتاجس کی وجہ سے ضلع بھر میں سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے والے 30سے زائد اسکول محکمہ تعلیم کے ریکارڈ پر موجود نہیں اور نہ ہی بلوچستان ایجوکیشنل مینجمنٹ اینڈ انفار میشن سسٹم میں ان اسکولوں کا کوئی ریکارڈ یا کوڈ موجود نہیں ہے۔
جس کی وجہ سے تعمیر ہونے والے اسکولوں کی عمارتیں سیاسی اور علاقے کے قبائلی معتبرین کے بیٹھک بن گئے ہیں سیاسی بنیادوں پر قائم ہونے والے اور اپ گریڈ ہونے والے اسکولوں کے14 فیصد بچے پرائمری سے مڈل تک پہنچ پاتی ہیں۔
بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح جعفر آباد میں بھی تعلیمی بہتری پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی عوامی نمائندوں کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر اسکیمات کی بندربانٹ نے بھی تعلیم کو 100سال پیچھے کردیا ہے موجودہ تعلیمی بجٹ کے فنڈز منتخب عوامی نمائندوں نے جس طریقے سے تعلیم کیلئے مختص فنڈز کا بندربانٹ کیا یہ نا صرف ان کی کارکردگی اور بلند بانگ دعووں پر سوالیہ نشان ہے ۔
جعفرآباد کے دور دراز علاقوں میں گرلز مڈل اور ہائی اسکولوں کی قیام نہ ہونا خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے کی گہری سازش سے کم نہیں حتیٰ کہ ان ہی عوامی نمائندوں کی نشاندہی پر جعفر آباد کے دور دراز علاقے جہاں پہ لڑکیوں کا مڈل اسکول نہیں وہاں انٹر کالج کے لیے فنڈز مختص کیا جاتا ہے جو فنڈز کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں۔
حکومتی عدم دلچسپی اور عوامی نمائندوں کی بندربانٹ سے جعفر آباد میں تعلیمی بہتری کے بجائے تعلیمی تباہی کی طرف گامزن نظر آتاہے، رواں مالی سال اپنے اختتام کے قریب ہے لیکن اب بھی تعلیم کیلئے کوئی بھی ترقیاتی اسکیم مکمل نہیں ہوسکا اور ضلع جعفر آباد میں 50 فیصد سے زائد اسکیمات پر کام شروع کیا گیا ہے ۔
اب تک کوئی بھی اسکیم اپنے تکمیل کو نہیں پہنچا بلوچستان میں تعلیمی بجٹ کو 24فیصد تک پہنچایا گیا لیکن اس کے ثمرات عوام اور خصوصاً تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اوربچیوں تک نہیں پہنچ سکے اور جعفرآباد کے بیشتر اسکولز جن میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول ڈیرہ اللہ یار سر فہرست ہے کی بد حالی چیخ چیخ کے منتخب نمائندوں کی ترجیحات اور کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے اور کئی گرلز مڈل اسکولز کو اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے ۔
لیکن عوامی نمائندوں کی جانب سے محکمہ تعلیم سے کوئی بھی رائے نہیں لی جاتی،جعفرآباد کی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی صرف 11 فیصد طلباء4 میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں زیادہ تر طلبا ء4 و طالبات اسکولز دور ہونے یا سہولیات کی کمی کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پرائیوٹ میٹرک کرتے ہیں ۔
جس سے ان کے پاس ڈگری تو آجاتی ہے لیکن تعلیم نہیں جس کی اس ترقی اور سائنسی دور میں اشد ضرورت ہے تعلیمی ابتر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جعفر آباد کے شہریوں نے وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور جعفرآباد سے منتخب عوامی نمائندوں سے وعدہ نبانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جعفرآباد کے شہریوں کا مطالبہ ہے کہ دونوں حلقوں کے منتخب نمائدوں کا تعلق پاکستان مسلم لیگ سے ہے جن کا نعرہ تھا حکومت میں آکر جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرینگے جو ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ،تعلیم دوستی کا ثبوت دیں تعلیمی بجٹ بڑھائیں۔
تعلیمی ایمر جنسی بے سود ،کہیں سکول مہمان خانے کہیں مویشیوں کے گڑھ بنے ہیں ،فنڈز جاری نہیں ہوتے، تعلیمی نظام تباہ
وقتِ اشاعت : May 25 – 2017