|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2017

کوئٹہ : لاپتہ بلوچ اسیران وشہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 2683دن ہوگے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں علی حسن کھوسہ ایڈوکیٹ ،اسد اللہ ابڑو ایڈوکیٹ ،منیراحمد جتوئی ایڈوکیٹ اور دیگر وکلاء برادری نے لاپتہ افراد ،شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی وائس فار بلوچ پرسن کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چند دن پہلے میں لکھا تھا کہ وہ مردار پہاڑ کے دامن میں ایک بڑے کھائی میں انسانی ڈھانچے پڑے ہیں۔

جو لاپتہ بلوچ افراد کے ہوسکتے ہیں ایک ہفتہ پہلے اسپلنجی کفر میں ایک فوجی آپریشن ہواتھا جس میں بے گناہ لوگ بھی مارے گئے تھے ان میں عبدالوحید نامی شخص بے گناہ مارا گیا تھا جس کے لاش کو ایف سی والے گئے تھے جو�آج تک نہ لواحقین کو واپس کیا اور نہ ہی ہسپتال کے مردہ خانہ لایا گیا ہوسکتا ہے ۔

یہ وجہد ہے کیونکہ کڑی یوں ملتی ہے کہ ایک ہفتہ پہلے آپریشن ہواتھا اوریہ لاش ایک ہفتہ پرانی ہے ماما قدیر بلوچ نے مزید کہاکہ یہ بات توحتمی ہے کہ خوف انسان میں احتیاط بھرتنے کی عادت ڈال دیتی ہے مگر بے جاخوف انسان کی ذہنی تناو کا شکار کرکے اسلئے اس کام بھی کرنے دور کردیتا ہے کہ جیسے کرنے کا وہ ارادہ رکھتاہو اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سیاسی ورکر جو کسی منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے کوئی ٹیم تشکیل دیتے ہوں انہیں چاہیے

کہ وہ نہ صرف اس کی مسلسل رہنمائی کریں بلکہ اس عمل سے جتنا ہوسکے خودکو جڑرکھیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ ورکرجو کسی منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے کوئی ٹیم تشکیل دیتے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ نہصرف اس کی مسلسل رہنمائی کریں بلک اس عمل سے جتنا ہوسکے خود کو نزدیک کریں ۔

مامانے مزید کہاکہ وہ ورکرکسی عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے سے خوف زدہ ہوں وہ محض اپنے توہمات پروپیگنڈہ وخود روخیالات سے بھی خوفزدہ ہوکر غیر متحرک وغیر فعال ہوسکتے ہیں اس اثناء میں یہ بھی ضروری ہے کہ احتیاط محض اس حدتک رکھی جائے کہ جس سے نقصانات کے مواقعوں کا خاتمہ ہونہ کہ بے جا وغیر ضروری احتیاط کے سبب خوف کے ماحول کو بڑھا کر سیاسی ورکروں کو ذہنی اذیت دی جائے ۔