کوئٹہ: بلوچستان کو کینسر کا مرض تیزی سے اپنے پنجوں میں جھکڑ رہا ہے ہم اپنی کمزوریوں ،ڈاکٹروں کی نااہلی اور انتظامی ناکامی کے باعث اس مرض کے سامنے بند باندھنے میں ناکام ہو چکے ہیں بلوچستان کا اور ایک چراغ جو کینسر کا شکار ہوکرہمیشہ کیلئے بجھ گیا۔
سبی کا رہائشی فراز علی شاہ گزشتہ کافی عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیرعلاج تھا فراز علی کے علاج پر ڈاکٹروں نے تیس لاکھ روپے تک کا خرچہ آنے کو کہا تھا تاہم حکومت کی عدم سنجیدگی اور وسائل کی کمی کے باعث اسکے اہلخانہ اور لواحقین اس کا بندوباست نہ کرسکیں جس کے باعث آج ایک اورنوخیز نوجوان اس موذی مرض سے جنگ ہار کر دنیا فانی سے رخصت ہو گیا۔
فراز علی شاہ کیلئے سوشل میڈیا پر کافی دنوں میں مہم چلائی جارہی تھی تاہم حسب روایت حکمران اور بالادست طبقہ کو اس کی مدد کاخیال نہیں آیا اس سے قبل بھی بلوچستان کے متعدد سپوت اس جان لیوا بیماری کاشکار ہوچکے ہیں ۔
نوشکی کے رہائشی شہ مرید مینگل، ریحان رند سمیت متعدد افراد حال ہی میں اس مرض سے لڑتے لڑتے جانبر نہ ہوسکیں، گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کوئٹہ آمد پر سول سوسائٹی کی جانب سے کینسر ہسپتال کی تعمیر کیلئے احتجاج کیاگیا۔
تاہم ان کی شنوائی نہ ہوسکی، کینسر کے علاج کیلئے بلوچستان میں ایسا کوئی ہسپتال موجود نہیں جہاں سے امیر صوبے کے پسماندہ عوام اپنا علاج کرواسکیں، کینسر کا علاج کافی مہنگا ہے، جو یہاں کے باسیوں کے بس کی بات نہیں، حکمرانوں کے آگے باربار ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود غرض صوبے کے خود غرض عوام مرنے کو ہی ترجیح دیتے آرہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مزید غفلت میں مبتلا حکمران صوبے کے مفلوک الحال عوام کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ہر سال اربوں روپے کے فنڈز لیپس کر کے واپس مرکز کو بھیجنے کی بجائے یہاں جدید سہولیات سے آراستہ ایک کینسرہسپتال تعمیر کریں تاکہ اس موذی مرض کے آگے بند باندھنا ممکن ہو اور آئندہ فراز شاہ، شہ مرید ،یا ریحان رند کے اہلخانہ کو وسائل کی کمی کے باعث ان کی جان بچھانے کاغم عمر بھر نہ رلائے ۔