کوئٹہ : کچھی کینال کی تعمیر پر اب تک وفاقی حکومت نے 65ارب روپے خرچ کیے ہیں لیکن اس کا پہلا فیز مکمل نہیں ہوا ہے ۔ کچھی کینال بلوچستان کا سب سے زیادہ اہم ترین معاشی ترقی کا منصوبہ ہے جس کی اہمیت موجودہ دور میں سی پیک اور گوادر سے زیادہ اہمیت ہے ۔
آئندہ مالی سال میں وفاقی حکومت نے اس کی تعمیر کے لئے دس ارب روپے مختص کیے ہیں 65ارب روپے خرچ خرچ کرنے کے بعد کیچھی کینال زیادہ سکنڈلز سامنے آئے ہیں ’ کچھی کینال کے ٹھیکے دار اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نے گزشتہ مہینوں کچھی کینال کے پہلے فیز کے مکمل کرنے کا دعویٰ کیا اور ساتھ یہ بھی کوشش کی کہ اس کو حکومت کے حوالے کیاجائے ۔
حکومت نے جب کام کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ تعمیرات میں غیر معیاری میٹریل استعمال ہوا اور وہ بھی بڑے پیمانے پر ۔ اور پوری کی پوری تعمیرات غیر معیاری تھیں حکومت نے اس کی تعمیر نو کا حکم دیا ۔ تعمیر نو کا عمل آئندہ چند ہفتوں میں مکمل ہونے والا ہے ۔ اور یہ فیز ون حکومت بلوچستان کے حوالے کیاجائے گا۔
اس سے بگٹی قبائلی علاقے کے اسی ہزار ایکڑ زمین آباد ہوگی مگر آزاد ماہرین معاشیات نے حکومت بلوچستان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ کنکریٹ سے تعمیر شدہ نہر کو ہی قبول کرے ۔ ورنہ کچھی زمین میں اتنا رساؤ ہو گا لاکھوں ایکڑ زمین سیم اور تھور کا شکار ہوجائے گی جیسا کہ صحبت پور کی دو لاکھ ایکٹرسے زائد زمین پٹ فیڈر میں پانی کے بے پناہ رسنے سے سیم اور تھور کا شکار ہوگئی ہے ۔
کیچھی کینال سات لاکھ سے زائد ایکڑ زمین آباد کرے گا۔ اس میں بگٹی قبائلی علاقہ ‘کیچھی کینال اور سبی کے میدانی علاقے شامل ہیں ۔ کچھی کینال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جان بوجھ کر کچھی کینال کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ابھی تک 25سال کی دیر ہوچکی ہے ۔ 1991ء میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا۔
چونکہ بلوچستان دریائے سندھ کے نہری نظام کے آخری سرے پر واقع ہے ۔ اس لیے سندھ کے نہری پانی سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اصافی پانی دیا گیا یہ معاہدے کا حصہ ہے جس پر چاروں صوبوں کے نمائندوں کے دستخط ہیں چونکہ اضافی پانی کو استعمال میں لانے کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا اس لیے بلوچستان حکومت کی جانب سے کچھی کینال کی تعمیر کا منصوبہ منظور کر لیا گیا ۔
کچھی کینال کی غیر موجودگی میں دس ہزار کیوسک اضافی پانی سندھ اور پنجاب استعمال کرتے رہے یہاں تک خشک سالی کے دوران پٹ فیڈر کو زیادہ اپنی فراہم نہیں کیا گیا ۔
احتجاج کے بعد صرف تین ہزار کیوسک پانی فراہم کیا گیا ۔ اس کی سست رفتاری کی بنیادی وجہ کرپشن اور نہری پانی کا سندھ اور پنجاب میں زیر استعمال تھا ۔ 65ارب خرچ ہونے کے بعد بلوچستان کے عوام کو ابھی تک کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔
کچھی کینال میں کرپشن کی کہانیاں مشہور ہیں ’ اس پر ایک اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ کچھی کینال میں کرپشن کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے بلوچستان کا اس میں زبردست نقصان ہوا ۔
اگر بیس سال پہلے کیچھی کینال تعمیر ہوتا ۔ تو لوگ بیس سالوں کی فصلیں استعمال میں لاتے ۔ اور سات لاکھ ایکڑ زمین میں آمدنی حاصل کرتے تو بڑی حد تک علاقے میں غربت کم سے کم تر ہوتی ۔
واضح رہے کہ کچھی کینال کا مطالبہ سب سے پہلے سابق گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے 1972ء میں کیا تھا یہ منصوبہ بلوچستان کی حکومت نے تیار کیا تا اور 1972ء میں وزارت منصوبہ بندی و ترقیاتی کے سپرد کردیا گیا تھایہاں دہائیوں تک وزارت منصوبہ بندی کے سرد خانے میں پڑا رہا ۔ اور 1991ء کے بعد اس پر عمل درآمد کا خیال ہے ۔
زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت بلوچستان کو کچھی کینال میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی دے رہی ہے نہ ہی کسی نے کچھی کینال کے سائٹ کا دورہ کیا ہے ۔ جب غیر معیاری تعمیرات حکومت بلوچستان کے سر تھوپ دئیے جائیں گی تو اس کے بعد ہی صوبائی حکمرانوں کو ہوش آئے گا کیچھی کینال سے لاکھوں انسانوں کا روزگار وابستہ ہوگا۔